امریکا کی طرف سے شمالی کوریا کو ’’سخت ملٹری رد عمل‘‘ کی دھمکی کے بعد جنوبی کوریا کی فوج نے آج پیر کے روز ایک میزائل سمندر میں فائر کیا ہے۔ اس کا مقصد شمالی کوریا کی جوہری تجرباتی سائٹ کو نشانہ بنانے کی مشق تھا۔
اشتہار
جنوبی کوریا کی طرف سے یہ اقدام پیونگ یانگ کی طرف سے ایک اپنے اب تک کے سب سے طاقت ور جوہری تجربے کے ایک روز بعد سامنا آیا ہے۔ اتوار تین ستمبر کو شمالی کوریا نے ایک زیر زمین جوہری تجربہ کیا جس کے بارے میں شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہائیڈروجن بم کا دھماکا تھا۔ 2006ء کے بعد سے شمالی کوریا کا یہ چھٹا جوہری دھماکا تھا۔
شمالی کوریا کے اس جوہری تجربے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر پیغامات میں یہ دھمکی بھی دی کہ وہ ان تمام ممالک کے ساتھ تجارت روک دیں گے جو شمالی کوریا کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان کی طرف سے یہ ڈھکے چھپے انداز میں دراصل چین کے لیے انتباہ تھا۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت کی طرف سے پیونگ یانگ حکومت کو ’’انتہائی سخت فوجی رد عمل‘‘ کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
جنوبی کوریا کی فوج کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس ’’لائیو فائر ایکسرسائز‘‘ کا مقصد پیونگ یانگ کو ’’سختی سے متنبہ‘‘ کرنا تھا۔ جنوبی کوریا کے زمین سے داغے جانے والے ’’ہائیون مُو‘‘ Hyunmoo میزائل کو داغنے کی اس مشق میں F-15 لڑاکا طیاروں نے بھی حصہ لیا۔
شمالی کوریا کے جوہری تجربے پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس
شمالی کوریا کی طرف سے ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں شمالی کوریا کے اس اقدام پر عالمی برادری کی جانب سے ردعمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ اس ہائیڈروجن بم کو بین البراعظمی بیلیسٹک میزائل پر نصب کیا جا سکتا ہے۔
شمالی کوریا کی طرف سے اس نئے جوہری حملے کی عالمی برادری کی طرف سے سخت مذمت کی گئی ہے جبکہ جنوبی کوریا اور جاپان نے مطالبہ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف اقوام متحدہ کی نئی پابندیاں عائد کی جائیں۔
امریکی مانیٹرز نے اتوار کے روز شمالی کوریا کی مرکزی جوہری ٹیسٹ سائٹ کے قریب 6.3 کی شدت کے طاقتور زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے تھے۔ اس زلزلے کے جھٹکے چین اور روس میں بھی ریکارڈ کیے گئے۔
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: AP
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
تصویر: Claude de Chabalier/AFP/Getty Images
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔