جنوبی کوریا ’کمفرٹ ویمن‘ معاہدے میں تبدیلی سے باز رہے، جاپان
عاطف توقیر
28 دسمبر 2017
جاپانی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر جنوبی کوریا نے ’کمفرٹ ویمن‘ معاہدے میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی کی، تو اس سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔
اشتہار
جمعرات اٹھائیس دسمبر کے روز جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن نے کہا کہ جاپان کے ساتھ سن 2015ء میں ’کمفرٹ ویمن‘ معاہدے میں کئی طرح کے سنجیدہ مسائل ہیں۔ تاہم جاپان نے کہا ہے کہ اس معاہدے میں کسی بھی تحریف یا نظرثانی سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
اس معاہدے پر تحقیق کرنے والے ایک جنوبی کوریائی پینل نے بدھ کے روز کہا تھا کہ یہ معاہدہ ان ہزاروں لڑکیوں اور خواتین کی امنگوں کی ترجمانی کرنے میں ناکام رہا ہے، جنہیں دوسری عالمی جنگ میں جاپانی فوجیوں نے جنسی مقاصد اور جبری مشقت کے لیے استعمال کیا تھا۔ جاپان میں ان خواتین کو ’کمفرٹ ویمن‘ کہا جاتا رہا ہے۔
جاپانی خواتین کا ایک غیر معمولی کلب
یہ خواتین خود کو ’ملٹری فرسٹ گرلز‘ کہتی ہیں۔ ملٹری فرسٹ گرلز شمالی کوریائی خواتین گروپ ’’مورانبونگ گرل بینڈ‘‘ کی نقل کرتے ہوئے وردی پہن کر پرفارم کرتی ہیں۔ ان جاپانی خواتین نے ٹوکیو میں ایک فین کلب کی بنیاد رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
شمالی کوریائی احساس
اس تصویر میں درمیان والی خاتون اس گروپ کی سربراہ چُن چُن ہیں۔ یہ تینوں ٹوکیو میں شمالی کوریائی ثقافت کے مداحوں کی ایک محفل میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یہ گروپ متنازعہ بھی ہے۔ چُن چُن کے بقول انہیں شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کا جاسوس کہتے ہوئے سماجی ویب سائٹس کے ذریعے دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
صرف شمالی کوریائی ثقافت میں دلچسپی
چُن چُن اپنے گروپ پر عائد کیے جانے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ ملٹری فرسٹ گرلز شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن اور ان کے طرز سیاست کی شدید مخالف ہیں۔ یہ خواتین صرف شمالی کوریائی ثفاقت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
’’مورانبونگ گرل بینڈ‘‘ ایک ماڈل
کم جون اُن نے 2012ء میں’’مورانبونگ گرل بینڈ‘‘ بنایا تھا۔ یہ گروپ شمالی کوریا میں بہت مشہور ہے۔ یہ خواتین وردی پہن کر، مختصر اور چمکیلے کپڑے اور اونچی ایڑی والے جوتے پہن کر کلاسیکی، لوک موسیقی، 1980ء کی دہائی اور راک میوزک کے امتزاج پر پرفارم کرتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گانوں کا سیاست اور فوج سے کوئی نہ کوئی تعلق ہوتا ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
زیادہ سے زیادہ شمالی کوریا
’ملٹری فرسٹ گرلز‘ کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹوکیو میں بھی بالکل شمالی کوریا کے طرز کا ماحول پیش کیا جائے۔ اسی وجہ سے چُن چُن اور ان کے گروپ کی دیگر لڑکیاں شمالی کوریا کا میک اپ ہی استعمال کرتی ہیں۔ یہ میک اپ چین اور شمالی کوریا کی سرحد پر واقع دکانوں سے خریدا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
مداح بھی حصہ لیتے ہیں
’’مورانبونگ گرل بینڈ‘‘ زیادہ تر شمالی کوریا پر برسر اقتدار جماعت اور فوجیوں کی محفلوں میں اپنی پرفارمنس پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح ٹوکیو میں شو کے دوران مداح بھی خوب تیاری کر کے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر شمالی کوریائی فوج کا یونیفارم پہننا پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
لوازمات بھی شامل ہوتے ہیں
کسی بھی پرفارمنس کے موقع پر شمالی کوریا کے بانی کم اِل سُنگ اور ان کے صاحبزادے کم جونگ اِل کو کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ جاپان میں شمالی کوریا فین کلب میں ان دونوں کے تصاویر والے کلپ بھی کپڑوں پر لگائے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
ٹوتھ پک پر بھی شمالی کوریا
’ملٹری فرسٹ گرلز‘ کی سربراہ چُن چُن کے مطابق کھانوں میں بھی شمالی کوریا سے محبت جھلکتی ہے۔ ان کے بقول کسی بھی محفل کے موقع پر صرف شمالی کوریائی طعام رکھے جاتے ہیں۔ یہاں تک کے خلال کے لیے رکھے جانے والے ٹوتھ پِکس پر شمالی کوریائی پرچم لگایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
سیاست غیر اہم
رواں برس اگست سے لے کر اب تک شمالی کوریا نے دو مرتبہ ایسے میزائل داغے، جنہوں نے جاپان کی فضائی حدود سے گزرنے کے بعد اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ ستمبر میں پیونگ یانگ نے چھٹا جوہری تجربہ کیا۔ اس وجہ سے خطے میں پیدا کشیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ملٹری فرسٹ گرلز اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
8 تصاویر1 | 8
دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے کی بابت جاری ان تلخ جملوں کے تناظر میں تعلقات میں یہ کشیدگی ایک ایسے وقت پر پیدا ہوئی ہے، جب یہ دونوں امریکی اتحادی ممالک شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگراموں سے متعلق تنازعے کے حل کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔
جنوبی کوریا کے صدر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ معاہدہ ’کمفرٹ ویمن‘ کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ سیاسی معاہدہ متاثرہ خواتین اور عوام کی امنگوں سے دور ہے اور بین الاقوامی سوسائٹی کے بنیادی اصولوں کے منافی بھی ہے۔‘‘
دوسری جانب جاپانی وزارت خارجہ کی ایک ترجمان نے کہا کہ اس سلسلے میں سیئول پر سفارتی ذرائع سے ٹوکیو حکومت کا موقف واضح کر دیا گیا ہے۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/R. Ozawa
10 تصاویر1 | 10
اس سلسلے میں جاپانی وزیر خارجہ تارو کونو اپنے بہت سخت ردعمل میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نہ صرف جاپان کے لیے ’ناقابل قبول‘ ہو گی بلکہ تعلقات کو شدید نقصان بھی پہنچائے گی۔
دوسری جانب جنوبی کوریائی صدر کے ایک ترجمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا صدر مون جے اِن اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تو ترجمان نے کہا کہ فی الحال یہ بات کہنا ’نامناسب‘ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سیئول حکومت جلد ہی اپنی حتمی پوزیشن واضح کر دے گی۔