جنوبی کوریا کی آبادی میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟
26 دسمبر 2021جنوبی کوریا اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے آبادی میں کمی کے مسئلے سے لڑائی میں مصروف ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز میں جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوبی کوریا یہ لڑائی ہار رہا ہے۔
چین میں شادی شدہ جوڑوں کو اب تین بچوں کی پیدائش کی اجازت
سنکیانگ: شرح پیدائش تاریخ کی کم ترین سطح پر
52 ملین آبادی کے ملک جنوبی کوریا میں رواں برس 0.18 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جنوبی کوریا میں نفوس شماری کے آغاز سے اب تک اس انداز کے رجحان کا یہ پہلا موقع ہے۔ شماریات اور نفوس شماری کے نگران حکومتی ادارے کے مطابق یہ رجحان جاری رہا تو ایک صدی بعد ملکی آبادی فقط بارہ ملین تک پہنچ جائے گی، جو موجودہ آبادی کا 23 فیصد بنتی ہے۔ اسٹیٹِسٹک کوریا کے مطابق اس وقت ملکی آبادی کا میڈین یا نقطہ وسط 43 ہے، تاہم سن 2070 میں یہ 62 ہو جائے گا۔
یہ اعدادوشمار لیکن اس ملک کے لیے حیران کن نہیں ہیں کیوں کہ جنوبی کوریا میں پہلے ہی ملکی آبادی میں کمی اور ضمنی چیلنجز کے حوالے سے آگہی موجود ہے۔ ایک طرف یہ ملک معمر افراد کی تعداد میں اضافے کا شکار ہے تو دوسری جانب یہاں بچوں کی شرح پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا کو مسلسل اپنے صحت اور معمر افراد کی دیکھ بھال کے شعبے میں زیادہ سرمایہ صرف کرنا پڑ رہا ہے۔
کئی سابقہ حکومتیں آبادی میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں کر چکی ہیں اور گزشتہ ایک دہائی میں اس سلسلے میں قریب ایک سو اسی ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں، تاہم نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ حکومت جوڑوں کو بچوں کی پیدائش پر زیادہ مراعات دے رہی ہے، تاہم ان مراعات کا شرح پیدائش میں اضافے کے اعتبار سے بہت کم اثر سامنے آیا ہے۔
خاندان پر بھاری دباؤ
انٹرنیشنل کرسچین یونیورسٹی ٹوکیو کی اسکالر اہیو ہے گیونگ کے مطابق، ''یہ مسئلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں خصوصاﹰ وبائی دور میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ان کا تاہم کہنا تھا، '' اس میں وجہ اسٹرکچرل ہے، جس نے کوریائی معاشرے کو متاثر کیا ہے، جب کہ اس کی کئی پرتیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ والدین میں بچوں کو ہر حال میں کامیاب دیکھنا سب سے بڑی وجہ ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کی تیز رفتاری اقتصادی ترکی اور نمو نے آج کے بچوں کے لیے غیرمعمولی مواقع پیدا کیے ہیں، وہ مواقع جن کا ان بچوں گرینڈ پرینٹس سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسی صورت حال میں یہ خیال زور پکڑ گیا ہے کہ بہتر ملازمت اور خوش و خرم زندگی کے لیے تعلیم نہایت ضروری ہے۔ اہیو ہے گیونگ کہتی ہیں، ''والدین اپنے بچوں کو انتہائی اعلیٰ تعلیم دلوانے میں اپنی توانائی خرچ کرتے ہیں اور حتیٰ کہ اپنی سالانہ آمدن کا پچاس فیصد تک خرچ کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان پر بھاری دباؤ ہوتا ہے اور ایسے میں وہ صرف ایک ہی بچے کا بوجھ برداشت کر پاتے ہیں۔‘‘
جولین رویال (ع ت/ع ح)