جنوبی کوریا کے لیے نیا سرحدی خطرہ، شمال سے آنے والے مچھر
21 ستمبر 2024جنوبی کوریا میں اسی سال ملیریا کی بیماری کے حوالے سے ایک ملک گیر انتباہ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر موسم بہار میں گرمی اور شدید بارشیں، خطے میں مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی ملیریا سمیت کئی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر شمالی اور جنوبی کوریائی ریاستیں، جو ابھی تک تکنیکی طور پر حالت جنگ میں ہیں، مل کر کام نہیں کرتیں، تو یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
دونوں ممالک کے مابین اصل مسئلہ غیر فوجی زون یا ڈی ایم زیڈ ہے۔ یہ چار کلومیٹر چوڑی ایک ایسی غیر آباد زمینی پٹی ہے، جو 250 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ 1953ء میں دونوں ممالک کے درمیان فائر بندی کے بعد قائم کیا جانے والا یہ علاقہ جنگلاتی اور دلدلی زمین والا ہے اور وہاں انسانوں کی کوئی آمد و رفت نہیں ہوتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بارودی سرنگوں سے بھرا یہ سرحدی علاقہ مچھروں کو ان کی افزائش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ ان میں ملیریا کا سبب بننے والے وہ مچھر بھی شامل ہیں، جو عماماﹰ 12 کلومیٹر دور تک سفر کر سکتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں بیماریوں کی روک تھام کے ملکی ادارے کے سائنسدان کم ہیون وُو کے مطابق ان علاقوں میں پانی کھڑا ہوتا ہے اور وہاں موجود جنگلی جانور مچھروں کو ان کے انڈوں کی نشو و نما کے لیے درکار وسائل مہیا کرتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں گزشتہ برس ملیریا کے کیسز میں تقریباً 80 فیصد اضافہ ہوا تھا، جو 2022ء میں 420 سے بڑھ کر 2023ء میں 747 ہو گئے تھے۔
سیول شہر میں واقع ساہم یُک یونیورسٹی میں ماحولیاتی حیاتیات کے پروفیسر کم ڈون گن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملیریا پھیلانے والے مچھروں کی تعداد میں اضافے کے باعث سرحدی علاقے میں تعینات فوجیوں میں ملیریا کی تشخیص کے واقعات مسلسل سامنے آتے رہتے ہیں۔
جنوب کی نسبت شمالی کوریا میں ملیریا زیادہ عام ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2021ء اور 2022ء میں وہاں ملیریا کے تقریباً 4,500 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ملک میں شدید غربت اور اشیائے خوراک کی عدم دستیابی اس صورتحال میں مزید بگاڑ کا باعث بن سکتی ہیں۔
سال 2011ء میں شمالی کوریا سے فرار ہونے کے بعد اب جنوبی کوریا میں بطور ڈاکٹر کام کرنے والے چوئی جُنگ ہُن کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا میں متعدی بیماریوں کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔
چوئی کا مزید کہنا تھا کہ پرانے آلات جیسے کہ پرانی خوردبین، ملیریا کی بلاتاخیر اور درست تشخیص کی راہ میں مشکلات کا باعث بنتے ہیں جبکہ غذائی قلت اور آلودہ پانی بھی عام شہریوں کو اس بیماری کا شکار بنا دیتے ہیں۔
اس موسم گرما میں شمالی کوریا میں آنے والا شدید سیلاب بھی مستقبل قریب میں حالات کو مزید خراب کر سکتا ہے۔
چوئی کے مطابق شمالی کوریا میں آج بھی بیت الخلا گھروں سے باہر کھلے علاقوں میں ہوتے ہیں۔ جب سیلاب آتا ہے تو انسانی فضلہ بھی پانی کے ساتھ بہنے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران جنوبی کوریا میں ملیریا کے زیادہ تر واقعات ان علاقوں سے رپورٹ ہوئے، جو غیر فوجی علاقے کے قریب ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں اس بیماری کے بہت کم کیس سامنے آئے۔
چھتیس سالہ شِن سیئو آ 2022ء میں مسلسل تیز بخار میں مبتلا رہنے کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئی تھیں، جہاں ان میں ملیریا کی تشخیص ہوئی تھی۔ تاہم بیمار ہونے سے پہلے انہوں نے اُس سال مشترکہ سرحدی علاقے کا دورہ نہیں کیا تھا۔
ڈاکٹروں کو ابتدائی طور پر لگا تھا کہ ان کے گردوں میں انفیکشن تھی۔ تب ان کے ملیریا کی مریضہ ہونے کی تشخیص میں 10 دن لگے تھے۔
ملیریا کا شکار ہونے کے بعد شِن کو پھیپھڑوں کی ایک بیماری بھی لاحق ہو گئی تھی، جو عام طور پر کمزور جسمانی مدافعتی نظام والے افراد کو متاثر کرتی ہے۔
شِن کہتی ہیں کہ ملیریا ایک خوفناک مرض ہے اور وہ امید کرتی ہیں کہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کو اسی سال اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ اپنے جملہ رابطے منقطع کر دیے۔ مزید یہ کہ شمالی کوریا نے بین الاقوامی امداد کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا، جس کے بعد فی الحال اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی تعاون ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔
ح ف / ج ا (اے ایف پی)