1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی یورپ میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور المناک حالات

3 اگست 2020

حد سے زیادہ بھرے ہوئے کیمپ اور غم و غصہ، جنوبی یورپ میں مہاجرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جنوبی اٹلی میں کئی شہروں کے بلدیاتی نمائندوں نے واضح طور پر حکومت کو تنبیہ کرنا شروع کر دی ہے۔

تصویر: Reuters/M. Buccarello

جنوبی اٹلی میں وہ کیمپ بھی بہت زیادہ بھرے ہوئے ہیں، جہاں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی پہلی مرتبہ رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ایسا صرف اٹلی میں ہی نہیں ہے، بلکہ بحیرہ روم کے علاقے کی کئی دیگر ریاستوں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔

اٹلی کے کئی شہر ایسے ہیں، جہاں کے میئر مرکزی حکومت سے بہت ناراض ہیں۔ ان کو روم حکومت سے شکایت یہ ہے کہ ان کے زیر انتظام بلدیاتی علاقوں میں ان دنوں گرمی ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکی ہے، اور بہت سے مہاجر کیمپ ایسے ہیں، جو بہت چھوٹے ہونے کے باوجود بھرے پڑے ہیں اور جہاں عمومی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ساتھ ہی یہ بلدیاتی نمائندے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ ایسے مہاجر کیمپوں میں نئے مہاجرین  رکھے جانے پر پابندی لگائی جائے۔

سات ماہ میں سمندری راستے سے تیرہ ہزار مہاجرین اٹلی پہنچے

اقوام متحدہ کے مہاجرین کے امدادی ادارے کے مطابق اس سال کے دوران اب تک بحیرہ روم کے راستے صرف اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد 13 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تعداد گزشتہ برس کے دوران اسی عرصے میں اٹلی کے ساحلوں تک پہنچنے والے پناہ کے متلاشی لوگوں کے مقابلے میں نو ہزار زیادہ ہے۔

اسپین میں بھی بڑی تعداد میں الجزائر سے تارکین وطن پہنچ رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/L. Carnero

ان مہاجرین کی مدد کرنے والی ایک تنظیم 'سی واچ‘ کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے رضاکار فیلِکس وائس ابھی حال ہی میں کئی ہفتوں تک اطالوی جزیرے لامپےڈوسا کے قریب سمندر میں ایسے مہاجرین کی مدد کرنے کے بعد واپس وطن پہنچے۔

فیلِکس وائس کہتے ہیں، ''اٹلی کے جزیرے لامپےڈوسا میں حالات بہت خراب ہیں اور ان میں مزید خرابی کا شدید اندیشہ ہے۔ وہاں کافی زیادہ کشیدگی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران وہاں تقریباﹰ ساڑھے پانچ ہزار پناہ گزین پہنچے۔ اس کا مطلب ہے کہ سمندری راستے سے مہاجرین سے بھری ہوئی روزانہ کم از کم دو تین کشتیاں لامپےڈوسا کے ساحلوں تک پہنچتی ہیں۔‘‘

دو چھوٹے شپ یارڈ نذر آتش

سمندری علاقوں میں مہاجرین کی مدد کرنے والے جرمن رضاکاروں کے مطابق  لامپےڈوسا کے جزیرے پر اب تک تارکین وطن پر کوئی باقاعدہ حملے تو دیکھنے میں نہیں آئے۔ لیکن دو ایسے چھوٹے شپ یارڈ، جہاں لکڑی کی بنی ہوئی وہ کشتیاں رکھی جاتی تھیں جن میں سوار ہو کر پناہ کے متلاشی غیر ملکی یورپ تک سمندری سفر کرتے ہیں، ان کو حال ہی میں آگ لگا دی گئی تھی۔

ان کیمپوں میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہےتصویر: picture-alliance/ANE

فیلِکس وائس کے مطابق انہوں نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ ماضی میں لامپےڈوسا کے مقامی باشندے تارکین وطن کے بارے میں کھلے پن کی سوچ کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن اب مقامی آبادی کی سوچ اور مزاج دونوں بدل چکے ہیں۔

ان حالات کا ذمے دار کون؟

بحیرہ روم کے پانیوں میں مہاجرین کی مدد کرنے والے رضاکاروں کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اٹلی سمیت کئی ممالک کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ لامپےڈوسا کے جزیرے کو زیادہ تر آمدنی سیاحتی شعبے سے ہوتی تھی، جو اب بری طرح بحران کا شکار ہو چکا ہے۔

اس دوران ایک تنازعہ یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ بحیرہ روم کے اطالوی جزیروں پر مقامی حکومتوں کو جس طرح کے حالات اور بےچینی کا سامنا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟

مقامی حکومتوں کو خدشہ ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی شدت میں کمی کے بعد یہی ہزاروں تارکین وطن مقامی سیاحتی شعبے کو مزید متاثر کریں گے۔ اس کے برعکس مرکزی حکومت کا ارادہ ہے کہ ان تارکین وطن کو فی الحال انہی جزیروں پر قرنطینہ میں رکھا جائے۔

عوامیت پسند سیاست دان فائدہ اٹھانے کی کوشش میں

ان حالات میں اٹلی میں دائیں باز وکی عوامیت پسند جماعت 'لیگا‘ کے رہنما ماتیو سالوینی جیسے سیاست دانوں کی کوشش ہے کہ وہ اس کشیدگی اور بے چینی کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کریں۔

اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سالوینی نے، جو ماضی میں اٹلی کے وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پچھلے ہفتے لامپےڈوسا کے اپنے دورے کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس جزیرے پر سیاحتی شعبے اور مقامی ماہی گیروں کی بری صورت حال کے ذمے دار وہ کئی ہزار مہاجرین بھی ہیں، جو آج بھی سمندری راستوں سے اس جزیرے تک پہنچ رہے ہیں۔

آندریاز نَول (م م / ش ج)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں