ایک تازہ سائنسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مکاک نسل کے بندر گری والے میووں کے بیرونی چھلکے توڑنے کے لیے اوزار کا استعمال کرتے ہیں۔ انسانوں کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کی جانب سے آلے کے استعمال کی یہ ایک اور انوکھی مثال ہے۔
اشتہار
بدھ کے روز سائنس دانوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ جنگلی بندروں کی یہ قسم بادام اور اس جیسے دیگر گری والے میووں کے بیرونی چھلکے توڑنے کے لیے اورزا کے استعمال کا گر سیکھ چکے ہیں۔ اس سے قبل سمجھا جاتا تھا کہ انسانوں کے علاوہ صرف چیمپینزیز ہی اوزار کا استعمال کر کے گری والے میوے کھاتے ہیں۔
برفانی بندر، جاپان کے قدرتی حُسن کا حصّہ
میکاک بندروں کا شمار ان چند ممالیہ جانوروں میں کیا جاتا ہے، جو جاپان میں صدیوں سے انسانوں کے ہم زیست ہیں اور انتہائی منفرد برفانی دنیا کی ایک جھلک سے دنیا کو روشناس کرواتے ہیں۔
تصویر: AP
بندروں کا وطن
یامانوچی نامی جاپان کا ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے گرم پانی کے تالابوں کے باعث مشہور ہے۔ لیکن اس جگہ کی اصل وجہ شہرت یہاں کا ’جیگو کُدانی سَنو منکی پارک‘ ہے جو دارالحکومت ٹوکیو سے ایک دن کی مسافت پر واقع ہے۔
تصویر: DW/Kai Dambach
برفانی بندروں کی ایک جھلک
یہ پارک انتہائی دلچسپ بندروں کی قسم ، جاپانی میکاک بندروں کی آماجگاہ ہے ۔ گرم پانی کے تالابوں اور جھرنوں میں پڑاؤ ڈالے ان برفانی بندروں کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے ہر سال متعدد سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
سیاحوں کی دلچسپی
اس پارک کی بنیاد سن 1964 میں اس وقت ڈالی گئی جب یہاں کی وادی میں ایک ہوٹل قائم ہوا اور یہاں آنے والوں نے سرخ چہرے والے بندروں کو گرم پانیوں میں آرام کرتے دیکھا۔ اب اس پارک میں سیاح آٹھ سوجاپانی ین یا ساڑھے سات ڈالر کی معمولی داخلہ فیس کے عوض ان بندروں کی دلچسپ حرکات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
جھیل کے پانیوں میں آرام
ان برفانی بندروں کو پارک میں موجود گرم پانی کی جھیلوں میں آرام کرنا اور وقت گزارنا بہت پسند ہے۔ ان بندروں کو گرم موسم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس وقت یہ ان پانیوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ بندر پورے علاقے میں بکھر جاتے ہیں لیکن ٹھنڈے موسم میں حرارت برقرار رکھنے کے لیے یہ قریب رہتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
سردی سے بچاؤ
میکاک بندروں کے جسم پر موجود بال انہیں ٹھنڈے موسم میں حرارت پہنچاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گرم پانیوں سے دور رہنے پر بھی ان پر سردی زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔
تصویر: Getty Images
بندر انسانوں کے دوست
برفانی بندروں کا یہ پارک سیاحوں کے لیے نہایت پُر کشش ہے۔ یہاں سیاح ان بندروں کے نہایت قریب آکر ان کے ساتھ تصاویر بھی بناتے ہیں۔ تاہم پارک کے قوانین کے مطابق ان بندروں کو سیاح نہ تو کھانے کے لیے کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کھلے عام پلاسٹک بیگ استعمال کر سکتے ہیں۔
برطانیہ اور تھائی لینڈ کے سائنس دانوں نے مکاک نامی لمبی دم والے بندروں پر تحقیق کی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ جنگلی بندر سمندری بادام اور آئل پام نَٹس وغیرہ توڑنے کے لیے پتھروں کو بہ طور اوزار استعمال کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ جنگلی بندر قریب دو کلوگرام کے پتھروں کو آپس میں ٹکرا کر بادام کا بیرونی چھلکا توڑتے ہیں، جب کہ تیز دھار پتھروں کو استعمال کر کے سیپیوں کو کھول کر اندر موجود اؤسٹر کھا لیتے ہیں۔
اس مطالعاتی رپورٹ سے قبل سائنسی تحقیق یہ بتاتی تھی کہ انسان کے علاوہ صرف اور صرف چیمپینزیز ہی پتھروں کا استعمال کر کے خوراک تک پہنچنے کی صلاحیت اور ہنر کے حامل ہیں۔
ہائبرڈ جانور، قدرت کا کرشمہ یا ارتقا؟
لائیگرز، ٹیگرون اور گرولر ریچھ۔ جی نہیں، یہ نقلی مخلوقات نہیں بلکہ دو مختلف حیوانی نسلوں یا اسپیشیز کے اختلاط سے جنم لینے والے جانور ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/Tiziana Fabi
جانوروں کی غیرعمومی دنیا
عموماﹰ ہائبرڈ جانور کسی خیال کے تحت بنائے جاتے ہیں، تاہم کبھی کبھی قدرتی قوتیں بھی جانوروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتی ہیں جہاں وہ دوسری انواع کے جانوروں سے اختلاط کرتے ہیں اور اس طرح نئے، غیر معمولی اور عجیب و غریب ’کراس برِیڈ‘ جانوروں کی پیدائش ممکن ہو جاتی ہے۔
تصویر: imago/ZUMA Press
ماحول کا اثر
ایسا ہی ایک جانور جو قدرتی طور پر دو اسپیشیز کے اختلاط سے وجود میں آیا، وہ ہے گرولر ریچھ۔ یہ جانور براؤن اور سیفد پولر ریچھ کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ کرہء شمالی پر برف پگھلنے کے نتیجے میں یہ پولر ریچھ جنوب کی جانب بڑھ رہے ہیں جب کہ گرم ہوتے موسم کی وجہ سے عام ریچھ شمال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان دونوں انواع کے اختلاط سے ریچھوں کی یہ نئی نسل جنم لے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Urquhart
آزاد تیراکی
سائنس دان قدرتی طور پر مختلف اسپیشیز کے اس اختلاط کو ’ارتقا میدان عمل میں‘ قرار دے رہے ہیں۔ آسٹریلوی ساحلوں پر مختلف طرح کی ’سیاہ نوک دار‘ شارک مچھلیاں ایسی ہی قدرتی کارستانی کا نتیجہ ہیں۔ یہ نئی مخلوق سرد اور گرم دونوں طرح کے پانیوں میں بقا کی صلاحیت کی حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE
معدومیت کے ممکنہ خطرات
یہ سب کچھ مثبت بھی نہیں ہے۔ اس قدرتی ارتقائی عمل کے نتیجے میں بعض اسپیشیز کے مکمل طور پر معدوم ہو جانے کے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں، جیسے کہ قطبی ریچھوں کے لیے۔ ان کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مستقبل میں پولر ریچھ براؤن ریچھوں سے اختلاط کر پائیں گے اور نتیجہ ان کی اپنی نوع کے خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/P. J. Richards
غیرذمہ دار برِیڈر
ہائبرڈ جانوروں میں بہت سوں کو جینیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے اور یہ بیماریوں سے جلد متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بانجھ پن کے ساتھ بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جانور نر شیر اور مادہ چیتا کے اختلاط سے پیدا ہونے والا ’لائیگر‘ ہے۔ یہ ’بہت بڑی بلی‘ پیسہ بنانے کے لیے مصنوعی طور پر تیار کی گئی، کیوں کہ قدرتی جنگلات میں اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Kurskov
غیرمتوقع آمد
چڑیا گھروں میں ہائبرڈ بریڈنگ کو روکا جا سکتا ہے، تاہم قدرتی طور پر ہونے والی اس بریڈنگ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مثلاﹰ آئرلینڈ کے ایک فارم میں بھیڑ اور بکری کی نسلوں نے قدرتی طور پر آپس میں اختلاط کیا اور نتیجہ ان دونوں انواع کی خصوصیات کے حامل ایک نئی نسل کے جانور کی پیدائش کی صورت میں نکلا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Murphy
قدرت پر کس کو بس
ہر مثبت اور منفی بات سے پرے، کچھ جانور اپنے قدرتی احساس سے مجبور ہو کر سب کو حیران کر دیتے ہیں۔ سن 2013ء میں اٹلی میں ایک زیبرا خاردار تاروں سے بنی دیوار پھلانگ کر ایک گدھی تک پہنچ گیا۔ اس واقعے کے بعد ’زونکی‘ پیدا ہوا، جو ’زیبرا‘ اور ’ڈونکی‘ کے ملاپ کا نتیجہ تھا۔
تصویر: Getty Images/Afp/Tiziana Fabi
7 تصاویر1 | 7
برطانیہ کی یونیورسٹی آف لندن کے پوسٹ ڈوکٹورل فیلو پروفیسر ٹوموس پروفیٹ نے یہ رپورٹ تحریر کی ہے۔ پروفیسر پروفیٹ کے مطابق، اس تحقیق سے تاریخ قبل از تاریخ اور ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملے گی، ’’اس سے ہماری اس سمجھ میں اضافہ ہو گا کہ صرف انسان یا انسان نما ہی خوراک کے حصول یا دیگر مقاصد کے لیے اوزار کا استعمال نہیں کرتے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ان جنگلی بندروں کو مسائل کے حل کے لیے انتہائی ذہین طریقہ کار کا حامل سمجھنا چاہیے۔ بالکل ویسا ہی، جیسا چیمپینزیز، کاپوچِن بندر یا ابتدائی انسان تھے۔‘‘
برازیل میں سن 2016ء میں سائنس دانوں نے بتایا تھا کہ کاپوچِن بندر دو غیر ہموار پتھروں کو آپس میں رگڑ کر ان کی سطح کو ہموار کرتے ملے ہیں۔ اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ ابتدائی دور کے انسان اس طریقہ کار کے استعمال کے ذریعے پتھروں کی سطح ہموار کر کے انہیں اوزار کے طور پر استعمال میں لاتے تھے۔
تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مکاک بندروں کے جزیرے میں پام آئل کے درخت کچھ ہی دہائیں قبل اگے تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان جنگلی بندروں نے صرف چند ہی دہائیوں میں چھلکوں کے اندر بند خوراک تک رسائی کے لیے طریقہ کار ڈھونڈ لیا۔