’جنگلی حیات سے متعلق متنازعہ بھارتی پالیسی ختم‘
17 مئی 2011ہفتے کو نئی حکومتی تجویز کا اعلان کیا گیا، جس کے مطابق اہم جنگلی حیات کی نشاندہی اس علاقے میں رہنے والے قبائلیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ تجویز وفاقی وزارت برائے ماحولیات اور جنگلات کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہے۔ وزارت نے ایک ماہ کے اندر اس پر مشورے اور تبصرے طلب کیے ہیں۔
قبل ازیں اکتوبر 2007ء میں اس حوالے سے ہدایات جاری کی گئی تھیں، جن کے مطابق اہم جنگلی حیات کے علاقوں میں بسے لوگوں کو وہاں سے نکالا جانا تھا۔
سروائول انٹرنیشنل کے مطابق ان علاقوں سے نکالے جانے والے قبائلی اپنی اس زمین اور وسائل سے محروم ہوجاتے ہیں، جن پر وہ نسلوں سے انحصار کرتے آ رہے تھے۔ اس گروپ کے مطابق انہیں اکثر ان کے مقدس مقامات اور قبرستانوں تک بھی رسائی نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نئی پالیسی کے مسودے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ جنگلی حیات کی موجودگی کے باوجود رہ سکتے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنگلات میں آباد کمیونٹیوں کو پارکس کے انتظامات میں شامل کیا جانا چاہیے۔
تاہم شیروں کی بہتات والے علاقوں کو اس مسودے کی تجاویز میں شامل نہیں کیا گیا۔ خیال رہے کہ بھارت میں جنگلات کی کٹائی اور دیگر انسانی سرگرمیوں کے باعث جنگلی حیات بالخصوص شیروں کے تحفظ کی کوششیں متاثر ہوئی ہیں۔
دوسری جانب قبائلیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ دنیا کے بعض بہترین محفوظ علاقوں میں قبائلی آباد ہیں۔ سروائول انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر اسٹیفن کوری کا کہنا ہے، ’یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے۔ یہ تجویز پیش کرنا پاگل پن ہے کہ جنگی حیات کے تحفظ کے لیے ان لوگوں کو وہاں سے ہٹانا ہو گا، جو سالوں سے اس کی حفاظت کرتے آئے ہیں۔‘
رپورٹ: ندیم گِل/ڈی پی اے
ادارت: شامل شمس