1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’جنگل برطانیہ اپنے ہاں لے جائے‘‘

عاطف توقیر25 جون 2016

فرانسیسی وزیرخارجہ ژاں مارک ایغو نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے کہ فرانسیسی سرحد کو برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد برطانوی سرزمین کی جانب منتقل کر دینا چاہیے۔

Frankreich Flüchtlingskinder in Calais
تصویر: Getty Images/M. Turner

فرانس میں مقامی رہنما زور دے رہے ہیں کہ برطانیہ کے ساتھ سرحدی کنٹرول کا دوبارہ نفاذ کر دیا جانا چاہیے۔

ایغو نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں اس بارے میں سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘‘

ایک اور فرانسیسی حکومتی عہدیدار نے بھی جمعے کے روز بریگزٹ ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی یورپی یونین سے انخلا کے حق میں رائے سامنے آنے کے بعد پیدا ہو جانے والے خوف کے تناظر میں کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے ویسے ہی رہیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا بریگزٹ سے فرانس اور برطانیہ کے درمیان امیگریشن کے معاملے میں کوئی تبدیلی آئے گی، فرانسیسی حکومتی ترجمان نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی معاہدوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

کلے میں ہزاروں مہاجرین مقیم ہیںتصویر: picture-alliance/empics/G. Fuller

اس سے قبل شمالی فرانسیسی شہر کلے کی میئر ناتاشا بوخارٹ نے کہا تھا کہ برطانیہ نے ریفرنڈم کے بعد فرانس برطانیہ سرحد میں اپنی جانب سرحدی کنٹرول نافذ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں رہتا، تو فرانس کو برطانیہ کے لیے سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری سے بھی دست بردار ہو جانا چاہیے۔

تاہم فرانسیسی وزیرخارجہ ایغو نے کہا کہ ان کے خیال میں اس وقت سمجھداری اور سنجیدگی سے کام لینا چاہیے۔

سن 2003ء میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان ٹوکے نامی معاہدے کے تحت برطانیہ کلے سے غیرقانونی تارکین وطن کی برطانیہ آمد روکنے کے لیے سرحد میں سفری دستاویزات کی جانچ کر سکتا ہے۔

دریں اثناء کلے شہر ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور فرانسیسی اہلکارکا خاویر برتراں کا کہنا ہے، ’’انگریز اپنی آزادی واپس چاہتے تھے، تو وہ اپنی سرحد بھی واپس لیں۔‘‘

اس ریفرنڈم سے قبل فرانس کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ کرتا ہے، تو کلے میں قائم مہاجر بستی بھی برطانیہ منتقل ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ شمالی فرانسیسی شہر کلے میں ہزاروں مہاجرین برسوں سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ان مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح دونوں ممالک کے درمیان زیرآب سرنگ کے ذریعے برطانیہ میں داخل ہوا جائے، تاہم سخت حفاظتی انتظام کی وجہ سے کسی مہاجر کو کم ہی ایسا کوئی راستہ میسر آ سکتا ہے۔ ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں یا پیدل طریقے سے یہ فاصلہ چھپ کر طے کرنے والے بہت سے افراد اب تک اس کوشش میں لقمہء اجل بھی بن چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں