جنگوں اور غربت کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں اجیرن، یونیسیف
20 نومبر 2017
دنیا کے سینتیس ممالک میں تقریباﹰ 180 ملین بچے شدید غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بیس برس پہلے کے مقابلے میں یہ بچے اسکول نہیں جا سکتے اور ان کی اموات انتہائی برے حالات کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں بچوں کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں جاری بدامنی، تنازعات، جنگوں اور ناقص حکومتی کارکردگی کی وجہ سے ہر بارہ میں سے ایک بچہ متاثر ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں بچوں کی تعداد تقریبا 2.2 ارب ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ خراب حالت زار جنوبی سوڈان کے بچوں کی ہے، جہاں خونریز خانہ جنگی پھیلی ہوئی ہے۔ وہاں گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں آج کے بچوں کو شدید برے حالات اور خوف کا سامنا ہے۔ اسی طرح دنیا کے چودہ ممالک، جن میں کیمرون، زیمبیا اور زمبابوے بھی شامل ہیں، میں غربت کی سطح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک کی زیادہ تر آبادی کی آمدنی یومیہ دو ڈالر سے بھی کم ہے اور انہیں شدید غربت کے حالات کا سامنا ہے۔
اسی طرح دنیا کے اکیس ممالک میں پرائمری اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ان ممالک میں خانہ جنگی کا شکار ملک شام اور تنزانیہ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پہلے کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں انیس سال سے کم عمر بچے تشدد کی کارروائیوں میں نہیں مارے گئے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ، عراق، لیبیا، جنوبی سوڈان، شام، یوکرائن اور یمن میں جنگی تنازعات جاری ہیں اور ان کا اثر ان ملکوں کے بچوں اور نوجوانوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ ان ملکوں میں بچوں کو بطور فوجی بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور فریقین کے حملوں میں وہ بچے اور نوجوان بھی ہلاک ہو رہے ہیں، جن کا ان تنازعات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
یونیسیف کی طرف سے یہ رپورٹ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔ سن 1989ء میں اقوام متحدہ نے بچوں کا عالمی دن منانے کے حوالے سے قرارداد منظور کی تھی۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘