بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما کے لیے سزائے موت کی توثیق
31 اکتوبر 2019
بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے جماعت اسلامی کے رہنما اے ٹی ایم اظہرالاسلام کو ملکی آزادی کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات ثابت ہو جانے پر سنائی گئی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
اشتہار
ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے جمعرات اکتیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اظہرالاسلام اس جنوبی ایشیائی ملک میں سخت گیر مذہبی سوچ کی حامل سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
انہیں 2014ء میں ایک عدالت نے 1971ء میں اس دور کے مغربی پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کی جنگ کے دوران ریپ، قتل اور نسل کشی کے الزامات کے تحت سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ اظہرالاسلام اپنے خلاف گزشتہ عدالتی فیصلے کے بعد سے جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف آج یہ فیصلہ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے اکثریتی رائے سے سنایا۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں سنائی گئی سزا پر آئندہ مہینوں میں یقینی طور پر عمل درآمد ہو جائے گا۔
سزائے موت پانے والے جماعت اسلامی کے چھٹے رہنما
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اگر اے ٹی ایم اظہرالاسلام کو سنائی گئی اور اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے توثیق کردہ سزا پر عمل درآمد ہو گیا، تو وہ مجموعی طور پر بنگلہ دیش کے ایسے چھٹے اسلام پسند سیاسی لیڈر ہوں گے، جنہیں 48 برس قبل ہونے والی جنگ کے دوران ان کے کردار کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر بنگلہ دیش میں ہنگامے
بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو جمعرات کی شب دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔ وہ پہلے رہنما ہیں جنہیں 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے آزادی کی تحریک کے دوران کردار پر تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے
عبدالقادر مُلا کو پھانسی دیے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں تشدد اور سیاسی افراتفری میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مُلا کی پھانسی کے ردعمل میں ملک میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا الزام
بنگلہ دیش میں قائم کیے جانے والے ایک خصوصی ٹریبونل نے رواں برس فروری میں جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران ایک پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ملیشیا پر الزام تھا کہ اس نے بنگلہ دیش کے بعض نامور پروفیسروں، ڈاکٹروں، مصنفین اور صحافیوں کو قتل کیا تھا۔ انہیں عصمت دری، قتل اور قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA
بے شمار گھر اور دوکانیں نذرِ آتش
مظاہرین نے کئی مقامات پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی املاک کو نذر آتش کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مظاہرین نے بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں حکومت کے سپورٹرز اور ہندو اقلیت کے گھروں اور دکانوں کو جلایا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں ہلاکتیں
تشدد کے اس تازہ سلسلے میں جمعے کے دن چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے حکمران عوامی لیگ کے دو کارکنوں کو جنوب مغربی علاقے ستخیرہ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ جنوبی ضلع نواکھلی میں جماعت اسلامی کے حامیوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کے دوران ایک شخص ہلاک ہوا جبکہ مشتعل مظاہرین نے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔
تصویر: REUTERS
پھانسی کے حامی بنگلہ دیشی شہری
جہاں ایک طبقے کی جانب سے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے، وہاں معاشرے کے کئی طبقات میں اس سزا پر اطمینان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمعرات بارہ دسمبر کی اس تصویر میں نظر آنے والے بنگلہ دیشی شہری سپریم کورٹ کی طرف سے ملا کی اپیل مسترد ہونے کے بعد نکالے جانے والے ایک جلوس میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پھانسی جمعرات کی شب دی گئی
عبدالقادر مُلا کو منگل کے روز پھانسی دی جانا تھی، تاہم آخری لمحات میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کے بعد اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ عبدالقادر ملا کی جانب سے اپنی سزا پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی تھی، جو مسترد ہو گئی۔ جمعرات کی شب پولیس کے سخت پہرے میں تین ایمبولینس گاڑیاں سڑکوں پر نکلیں، جن میں سے ایک میں غالباً عبدالقادر ملا کی میت تھی۔
تصویر: Reuters
پھانسی سے پہلے آخری ملاقات
عبدالقادر ملا کے قریبی عزیزوں نے جمعرات کے روز دن میں ڈھاکہ جیل میں اُن کے ساتھ آخری ملاقات کی۔ اُسی روز رات کو ملا کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی نے عبدالقادر مُلا کی پھانسی کو ایک سیاسی قتل قرار دیا ہے۔ جماعت کی طرف سے اتوار کے روز عام ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
مُلا سمیت پانچ رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے
آزادی کے لیے لڑنے والوں کی بہبود کے لیے قائم ایک تنظیم سے وابستہ افراد اس سال جولائی میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما علی احسن محمد مجاہد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر نعرے لگا رہے ہیں۔ مُلا سمیت اب تک پانچ اپوزیشن اور مذہبی رہنماؤں کو متنازعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جنوری سے اب تک اس حوالے سے پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
8 تصاویر1 | 8
1971ء میں سابقہ متحدہ پاکستان سے علیحدگی کی جنگ میں موجودہ بنگلہ دیش، جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا، میں جماعت اسلامی نے پاکستانی ریاست کی حمایت کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت کی تھی۔ اظہرالاسلام بنگلہ دیش کے وہ آخری سرکردہ اسلام پسند سیاسی لیڈر ہیں، جنہیں اپنے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا تھا۔
متنازعہ عدالت
بنگلہ دیشی حکومت نے عشروں پہلے کے ان خونریز واقعات سے متعلق قانونی کارروائی کے لیے جو عدالت قائم کی تھی، اس کا نام انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل ہے اور وہ ملکی سطح پر ایک متنازعہ عدالت سمجھی جاتی ہے۔ یہ عدالت 2010ء میں قائم کی گئی تھی اور گزشتہ چند برسوں کے دوران وہ درجنوں ملزمان کو موت کی سزائیں سنا چکی ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد ہو بھی چکا ہے۔
انہی سزا یافتہ ملزمان میں سے پانچ ایسے بھی تھے، جن کا تعلق بنگلہ دیشی جماعت اسلامی سے تھا۔ ان پانچوں افراد کو بھی سزائے موت دی جا چکی ہے۔ یہ عدالت جن دیگر ملزمان کو سزائیں سنا چکی ہے، ان میں سے ایک مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی کے ایک سابق وزیر تھے اور انہیں بھی پھانسی دے دی گئی تھی۔
بنگلہ دیشی جمہوریت کے لیے مشکل دور
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اتوار پانچ جنوری کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ملک گیر ہنگامے اور ہڑتالیں ایک معمول بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
سیاسی بد امنی
پانچ جنوری کو بنگلہ دیش میں مجوزہ انتخابات سے ایک سال پہلے سے یہ ملک مسلسل احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تواتر سے تصادم ہوتا رہا ہے۔ اس جماعت کی قائد نے دسمبر کے اواخر میں انتخابات کو روکنے کے لیے ’جمہوریت کے لیے مارچ‘ کی کال دی تھی۔ مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
اکثریت انتخابات کے خلاف
ڈھاکہ ٹریبیون کے ایک تازہ سروے کے مطابق ملک کے 77 فیصد شہری انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی شرکت کے بغیر یہ انتخابات ناقابل قبول ہوں گے۔ اس جائزے کے مطابق 37 فیصد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images
کاروبارِ زندگی مفلوج
سڑکوں، ریلوے لائنوں اور آبی راستوں کی ناکہ بندی نے بنگلہ دیش کی معیشت اور عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ڈھاکہ چیمبرز آف کامرس کے مطابق ایک دن کی ناکہ بندی سے ملکی معیشت کو 200 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ کسانوں کو اپنی مصنوعات منڈیوں تک پہنچانے اور ٹیکسٹائل ملوں کو اپنی مصنوعات بروقت روانہ کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
تصویر: DW/Mustafiz Mamun
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات؟
عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ (تصویر میں) اور اپوزیشن کے درمیان انتخابی عمل میں حال ہی میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات بھی وجہِ نزاع بنی ہوئی ہیں۔ حسینہ کے دورِ حکومت میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کے دوران ایک ایسی عبوری نگران حکومت کی تقرری سے متعلق شِق ختم کر دی گئی، جو انتخابات کے آزادانہ اور منصافنہ انعقاد کی ضمانت دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اپوزیشن سڑکوں پر
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء (تصویر میں) کا موقف یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے بغیر انتخابات غیر قانونی ہوں گے۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل مؤثر ثابت ہوئی ہے اور اس کے حامی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بی این پی اپنی بنیاد پرست حلیف پارٹی جماعتِ اسلامی پر لگائی جانے والی پابندی پر بھی ناراض ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
جماعتِ اسلامی پر پابندی
شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے 2013ء میں جماعتِ اسلامی کے سات رہنماؤں کو سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں ہائیکورٹ نے اس جماعت کو کالعدم قرار دے دیا چنانچہ اب یہ جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اس کے سات رہنماؤں میں سے ایک عبدالقادر ملا کو، جسے 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے لیے قصور وار قرار دیا گیا تھا، دسمبر میں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: Reuters
آخری منٹ پر انتخابات میں شرکت کا اعلان
ملک کی تیسری بڑی جماعت جاتیہ پارٹی، جس کے قائد سابق آمر حسین محمد ارشاد (تصویر میں) ہیں، ماضی میں عوامی لیگ کی حلیف رہی ہے۔ اس جماعت نے ابھی جمعرات کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا اور یہ عندیہ دیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے گی۔
تصویر: JEWEL SAMAD/AFP/Getty Images
ایک نشست، ایک امیدوار
آدھے سے زیادہ انتخابی حلقوں یعنی 300 میں سے 154 پر محض عوامی لیگ یا اُس کی کسی اتحادی جماعت کا کوئی ایک امیدوار ہی انتخاب لڑ رہا ہے۔ گویا یہ امیدوار ایک بھی ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے کامیاب ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی ابھی سے ان 154 امیدواروں کو ڈھاکہ میں ملکی قومی اسمبلی کے لیے منتخب قرار دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo
8 تصاویر1 | 8
بارہ سو افراد کا قتل
بنگلہ دیشی دفتر استغاثہ کے مطابق اس وقت 67 سالہ اظہرالاسلام 1971ء میں ایک پاکستان نواز ملیشیا کے رہنما اور جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے ایک 18 سالہ لیڈر تھے، جو آزادی کی جنگ کے دوران شمالی ضلع رنگ پور میں 1200 افراد کے قتل میں ملوث رہے تھے۔
اظہرالاسلام کے وکلاء دفاع کے مطابق ان کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ڈھاکا میں ریاستی دفتر استغاثہ کے ایک اہلکار نے البتہ کہا کہ اگر آج کے عدالتی فیصلے کے خلاف آئندہ کی جانے والی نظر ثانی کی اپیل بھی ناکام رہی، تو اظہرالاسلام کو یقینی طور پر آئندہ چند ماہ میں پھانسی دے دی جائے گی۔
جب اظہرالاسلام کو گرفتار کیا گیا تھا، اس وقت وہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے نائب سیکرٹری جنرل تھے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی)
باون سال بعد چلی بھارت بنگلہ دیش دوستی ٹرین
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد نے اپنے بھارتی دورے کے دوران کلکتہ کھلنا دوستی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھائی۔ اس دوستی ٹرین کا نام ’میتری 2‘ رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/P. Mani
میتری 2
فی الحال تجرباتی طور پر چلائی گئی ’میتری 2‘ نامی اس ٹرین کی دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کا باقاعدہ آغاز رواں برس جولائی سے ہو گا۔ ٹرین کی روانگی کے وقت موجود لوگوں نے اس کی ویڈیوز اور تصاویر بنائیں۔
تصویر: DW/P. Mani
ٹرین دیکھنے کا شوق
اس ٹرین کو بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان نقل و حمل کے نظام کی مشکلات کم کرنے میں ایک اہم ذریعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خواتین بچوں اور دور دراز کے دیہات سے آنے والے افراد بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ پہلے بھارتی اسٹیشن پر اس ٹرین کو دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے پہلے ہی جمع ہو گئے تھے۔
تصویر: DW/P. Mani
پھولوں سے استقبال
بنگلہ دیش کے شہر کھلنا سے بھارت آنے والی یہ ٹرین اپنے ساتھ پرانی یادیں بھی لے کر آئی۔ بھارتی اسٹیشن پترا پول پر مقامی رہائشیوں نے ٹرین کا پھولوں سے استقبال کیا۔
تصویر: DW/P. Mani
بھارت بنگلہ دیش دوستی
ٹرین کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کی بنگلہ دیشی ہم منصب حسینہ واجد کی تصاویر سے سجایا گیا تھا۔ ٹرین کے انجن پر لگے ایک بڑے بینر پر بھارت اور بنگلہ دیش کی دوستی کا ذکر کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/P. Mani
باون سال بعد
سرحد کے اس پار سے باون سال بعد پہلی ٹرین اس لائن پر چلی۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل اس راستے پر ٹرین چلا کرتی تھی تاہم سن 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے دوران اسے بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/P. Mani
اندرونی آرائش
اس ٹریک پر آنے والی آخری ٹرین کا انجن کوئلے سے چلتا تھا جبکہ نئی دوستی ٹرین کا انجن ڈیزل سے رفتار پکڑتا ہے۔ تاہم اس کی اندرونی آرائش بھارت کی دوسری دوستی ٹرین جیسی ہی رکھی گئی ہے۔
تصویر: DW/P. Mani
بھارت آمد
میتری 2 نامی اس ٹرین کے بنگلہ دیش سے بھارت پہنچنے پر اِس ٹرین پر آئے بنگلہ دیشی وفد کا بھارتی ریلوے کے اہلکاروں نے پھولوں کے گلدستوں سے استقبال کیا۔