جنگی کارروائیوں کے لیے جاپانی آئین میں تبدیلی
14 مئی 2015جاپان میں ملکی فوجوں کو بیرون ملک عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے اس بل کے معاملے پر ملکی عوام تقسیم ہے۔ اسے جاپان کی سلامتی سے متعلق ملکی پالیسیوں میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر پارلیمان سے بھی اسے منظوری حاصل ہو گئی تو جاپانی افواج بیرون ملک آپریشنز میں حصہ لینے کے علاوہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جاری کسی بھی آپریشن میں غیر ملکی فوجوں کو نقل و حمل میں تعاون فراہم کر سکیں گی۔
ان مجوزہ تبدیلیوں کا ایک ایسے موقع پر اعلان کیا گیا ہے، جب ابھی گزشتہ ماہ ہی امریکا اور جاپان کے مابین نئی دفاعی حکمت عملی پر اتفاق ہوا ہے۔ اِس کے تحت خطے میں جاپان کے کردار کو وسیع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ جاپانی وزیراعظم شنزو آبے کی کابینہ نے گزشتہ برس جولائی میں پر امن ملکی آئین میں اصلاحات کی ایک قرارداد منظور کی تھی، جس کا مقصد مشترکہ دفاعی مشقوں اور کسی دوست ملک پر حملے کی صورت میں فوجی تعاون فراہم کرنے پر عائد خود ساختہ پابندی ختم کرنا تھا۔
اس موقع پر بیجنگ حکومت نے کہا ہے کہ جاپان کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے جبکہ جنوبی کوریا نے ٹوکیو حکومت سے آئین کی روح پر قائم رہنے کے لیے کہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ہووا چُنینگ نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا، ’’ہمیں امید ہے کہ جاپان کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے پر امن طریقے سے ترقی کرنے کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے۔ جاپان کو ایشیائی خطے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے جاپان کے جنوبی کوریا اور چین دونوں کے ساتھ باہمی تعلقات کشیدہ ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران بیجنگ اور ٹوکیو کے روابط میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم بحیرہ جنوبی چین کے کچھ علاقوں پر ملکیت کے دعوؤں کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔ اس قرارداد پر جاپانی پارلیمان میں بحث ہونا ابھی باقی ہے تاہم آبےکی اکثریت ہونے کی وجہ سے اس کے منظوری میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔
جاپان میں کرائے جانے والے جائزوں کے مطابق آئین میں کی جانے والی ان اصلاحات پر ملکی عوام مختلف رائے رکھتی ہے۔ نشریاتی ادارے ’این ایچ کے‘ نے ایک سروے کے نتائج نشر کیے ہیں، جس کے مطابق یہ مجوزہ تبدیلیاں 49 فیصد عوام کو مکمل طور پر سمجھ نہیں آ رہیں جبکہ پچاس فیصد عوام امریکا اور جاپان کی دفاعی حکمت عملی کے تناظر میں ملکی افواج کی بڑھتے ہوئے کردار کے خلاف ہیں۔