جنگ بندی کی امریکی تجویر، ’نیتن یاہو پھنس چکے ہیں‘
2 جون 2024اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے قریبی ساتھی اوفیر فالک نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا ''جنگ بندی کے لیے نیا غزہ منصوبہ کوئی اچھا معاہدہ نہیں‘‘ ہے لیکن اسرائیل اسے قبول کرتا ہے۔ نیتن یاہو کے مشیر اور خارجہ پالیسی کے چیف کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک ''فریم ورک ڈیل کو قبول‘‘ کر لیا ہے اور اس میں مزید پیش رفت کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے اس مشیر کا مزید کہنا تھا، ''بہت ساری تفصیلات پر ابھی کام کرنا باقی ہے۔‘‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کے خاتمے جیسے اسرائیلی اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
نیا امریکی جنگ بندی معاہدہ کیا ہے؟
جمعے کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک نیا معاہدہ پیش کیا تھا۔ اس نئے منصوبے کے تحت کشیدگی کو تین مراحل میں کم کیا جائے گا، جس میں بنیادی نقاط میں جنگ بندی اور اسرائیلی فورسز کا غزہ سے انخلاء ہو گا۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے بارے میں امریکی صدر کا کہنا تھا، ''اس سے یرغمالیوں کو گھر نہیں لایا جا سکتا۔ یہ جنگ حماس کو مستقل شکست نہیں دے پائے گی۔ اس سے اسرائیل کو دیرپا سلامتی نہیں ملے گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''مکمل فتح کے ایک نامعلوم تصور کے تعاقب میں ایک غیر معینہ جنگ، اسرائیل کو غزہ کے دلدل میں پھنسا دے گی۔ اس کے فوجی، اقتصادی اور انسانی وسائل کو ختم کر دے گی اور دنیا میں اسرائیل کی تنہائی میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔‘‘
قطر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے آج جو بائیڈن کی جنگ بندی کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس سے کہا ہے کہ وہ اس جنگ بندی تجویز کو قبول کریں۔
یہ تجویز پہلے ہی عسکری گروپ حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے والوں کو بھیجی جا چکی ہے۔ امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بعد میں کہا کہ ساڑھے چار صفحات پر مشتمل یہ تجویز تفصیل سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید کہا کہ اسرائیل نے اس کی توثیق کر دی ہے اور جمعرات کی شام اسے حماس کو بھیجا گیا تھا۔ امریکی عہدیدار نے کہا کہ یہ تقریباً ویسی ہی تجویز ہے، جو حماس نے چند ہفتے قبل خود پیش کی تھی۔
مجوزہ جنگ بندی منصوبے کی عالمی حمایت
امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے اعلان کردہ جنگ بندی کی تجویز کو عالمی سطح پر بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے ''تمام فریقین کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی‘‘ اور ''تمام یرغمالیوں کی رہائی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت اور بالآخر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ''ہم نے غزہ میں بہت زیادہ مصائب اور تباہی دیکھی ہے۔ یہ رکنے کا وقت ہے۔‘‘
یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن نے اس تجویز کو ''متوازن اور حقیقت پسندانہ‘‘ اور ''غزہ میں جنگ اور شہری مصائب کے خاتمے کی طرف بڑھنے کا ایک اہم موقع‘‘ قرار دیا ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے حماس پر زور دیا کہ وہ اس معاہدے کو قبول کرے، ''تاکہ ہم لڑائی کا خاتمہ، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی وسیع فراہمی دیکھ سکیں۔‘‘ انہوں نے ایکس پر مزید لکھا ہے، ''آئیے اس لمحے سے فائدہ اٹھائیں اور اس تنازعے کو ختم کریں۔‘‘
نیتن یاہو کی حکومت مشکل میں
نیتن یاہو پر اپنی مخلوط حکومت برقرار رکھنے کے لیے دباؤ بڑھ چکا ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے دو وزرا نے دھمکی دی ہے کہ وہ ''حماس کو بچانے کے لیے کیے گئے کسی بھی معاہدے پر احتجاج‘‘ کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ دونوں وزرا اپنے ساتھیوں سمیت مخلوط حکومت سے نکلتے ہیں تو نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ختم ہو جائے گی۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر لوسیانو زکارا کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو ''درمیان میں پھنس چکے ہیں‘‘ کیونکہ انتہائی دائیں بازو کے وزراء نے جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کرنے کی صورت میں جنگی کابینہ چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔
پروفیسر لوسیانو زکارا کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم اب جو بھی فیصلہ کریں گے، انہیں تنقید ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ نیتن یاہو اب بھی کسی نہ کسی طرح ''مزید وقت‘‘ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اسرائیلی کارروائیاں جاری
تمام تر عالمی دباؤ کے باوجود اسرائیلی فورسز رفح میں جنگی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ غزہ میں حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 60 فلسطینی ہلاک اور 220 زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ ماہ اسرائیل کی جانب سے رفح کراسنگ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سینکڑوں امدادی ٹرک مصر میں پھنسے ہوئے ہیں، جن میں کھانے پینے کی اشیا ہفتوں سے سڑ رہی ہیں۔
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ میں شہری ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اب تک 36,439 افراد ہلاک اور 82,627 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جبکہ 10 ہزار فلسطینی ابھی تک لاپتہ ہیں۔
ا ا / ر ب، ع ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)