جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود غوطہ پر حملے جاری
23 مارچ 2018![Syrien Luftangriffe auf Ost-Ghuta](https://static.dw.com/image/43099968_800.webp)
دوسری جانب مشرقی غوطہ میں باغیوں کے ایک گروہ کی جانب سے جمعہ کی رات سے جنگ بندی کی ڈیل پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد شہریوں کو امدادی سامان کی فراہمی اور باغیوں کے انخلاء کو ممکن بنانا ہے۔
مشرقی غوطہ سے انخلا کرنے والوں کو بسوں کے ذریعے ملک کے شمال مغربی صوبے ادلب کی جانب روانہ کیا گیا۔ ادلب وہ آخری صوبہ ہے جہاں حکومت ابھی تک کنٹرول حاصل نہیں کر سکی ہے۔ تاہم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جنگ بندی ڈیل کے باوجود ادلب میں ایک مارکیٹ پر تازہ فضائی حملے کیے گئے ہیں جن کی زد میں آکر 11 بچوں سمیت 28 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
انخلا کے اس معاہدے کا اعلان بدھ کے روز کیا گیا تھا جس کے مطابق باغیوں کے زیر قبضہ غوطہ کے تین علاقوں کو باغیوں اور ان کے خاندانوں سے خالی کروایا جائے گا تاکہ حکومت دارالحکومت کے قریب مکمل کنٹرول حاصل کر سکے۔ اس معاہدے کا ایک مقصد اُن باغیوں کو مزید تنہا کرنا اور ایسے ہی معاہدے کے لیے دباؤ میں لانا ہے ، جنہوں نے مشرقی غوطہ کے دو حصوں پر اب بھی کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
ملکی نیوز ایجنسی SANA کے مطابق غوطہ کے شہر حرستا سے 30 بسوں کے زریعے 413 جنگجووں سمیت 1580 افراد کو ادلب پہنچایا گیا۔ ہراستہ پر قبضہ کیے ہوئے ایک باغی گروپ احرارالاشام کے ترجمان مُنظر فاریس کے مطابق انخلا کا یہ عمل کئی دن تک جاری رہ سکتا ہے۔
اسد مخالف باغی غوطہ چھوڑنے پر تیار
مشرقی غوطہ میں شامی دستوں کی بڑی کامیابی
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق 18 فروری سے باغیوں کے زیر قبضہ اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکومتی فورسز کی جانب سے کی گئی کارروائیوں میں اب تک 1500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔