1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ بوسنیا کے بیس برس پورے ہونے پر تعزیتی تقریبات کا اہتمام

7 اپریل 2012

جمعے کے روز سراجیوو (سرائیوو) کے مرکزی چوک میں گیارہ ہزار 541 خالی کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ یہ ان ہلاک شدگان کی یاد میں تھیں جوبیس برس قبل بوسنیائی جنگ کے شروع ہونے پر سراجیوو شہر میں ہلاک ہوئے تھے۔

تصویر: Reuters

دوسری عالمی جنگ کے بعد بوسنیا کی جنگ کو یورپ کا سب سے خونی تنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی شروعات اپریل کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران ہوئی تھی۔ جمعے کے روز سراجیوو کے مرکزی چوک میں رکھی گئی سرخ رنگ والی خالی ہزاروں کرسیوں پر مرحومین کی یاد میں ایک ایک سفید گلاب کا پھول بھی رکھا گیا تھا۔ ان خالی کرسیوں میں چھوٹی کرسیاں ہلاک ہونے والے بچوں کی یاد میں تھی۔

خالی ہزاروں سرخ کرسیاں ہلاک شدگان کی یاد میں رکھی گئی تھیںتصویر: dapd

گیارہ ہزار سے زائد افراد سراجیوو شہر کے محاصرے کے دورن ہلاک ہوئے تھے۔ سراجیوو کے شہریوں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خالی کرسیوں کو رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سراجیوو کے عوام نے تین سال سے زائد رہنے والے محاصرے کے دوران کس درجہ قہر برداشت کیا تھا۔

جمعے کے روز بعد از دوپہر مقامی وقت کے مطابق دو بجے سارا شہر ساکت ہو کر رہ گیا تھا اور یہ خاموشی بوسنیا کے خونی تنازعے کے شروع ہونے کی یاد میں اختیار کی گئی تھی۔ ان تقریبات کا اہتمام خاص طور پر اس روز کیا گیا تھا جب سربیا کے مسلح نشانچیوں نے بوسنیا کے ہزاروں پر امن مظاہرین پر گولیاں برسائی تھیں۔ یورپی یونین نے چھ اپریل سن 1992 کو بوسنیا کی سابقہ یوگو سلاویہ سے علیحدگی اور آزادی کوتسلیم کیا تھا اور اسی دن اگلے ساڑھے تین برسوں تک بوسنیا میں مسلح تنازعے کے دوران بےچینی، افراتفری اور ظلم و جبر کا راج رہا۔

اس خونی تنازعے کے دوران کل ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی اور چوالیس لاکھ افراد جنگی حالات کے دوران بے گھری کا شکار ہوئے تھے۔ ان خونی حالات کے دوران سراجیوو کے شہر کو چوالیس ماہ تک زیر محاصرہ رکھا گیا تھا۔ یہ جدید تاریخ کے دوران کسی بھی شہر کا طویل ترین محاصرہ خیال کیا جاتا ہے۔ بوسنیا کے سرب فوجی شہر کی پہاڑیوں سے گولہ باری کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے اور اس دوران ماہر نشانچی اپنی کارروائوں سے شہر کے افراد کو ہلاک کرنے میں مصروف رہے۔ سراجیوو کے شہر کی عمارتوں پر اب بھی شیلنگ اور گولیوں کے نشان اُس خونی دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

گیارہ ہزار سے زائد سرخ کرسیاں سراجیوو کی مرکزی شاہراہ پر لگائی گئی تھیںتصویر: dapd

اس جنگ کے دوران سن 1995 میں اقوام متحدہ کے محفوظ علاقے یا Safe Area کے ٹوٹنے پر سربرینٹسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کو بوسنیا کے سرب فوجیوں نے ہلاک کردیا تھا۔ انہی ہلاکتوں کے بعد نیٹو کی جانب سے فوجی ایکشن کا آغاز ہوا تھا۔ بوسنیا کے سرب نژاد سیاسی و فوجی لیڈر راڈووان کراچچ اور راتکو ملاڈچ سربرینٹسا میں قتل عام کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی اعلیٰ فوجداری عدالت میں اپنے خلاف شروع مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس خونی چپقلش کے بعد دو ریاستی اصول کے تحت تنازعے کا حل پیش کیا گیا۔ اب اس یورپی علاقے میں امن ضرور قائم ہو چکا ہے لیکن لوگ اس خوف و ہراس کے طویل دور کو ابھی تک بھول نہیں سکے ہیں۔

ah / ss (AFP,AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں