جنگ بوسنیا کے بیس برس پورے ہونے پر تعزیتی تقریبات کا اہتمام
7 اپریل 2012دوسری عالمی جنگ کے بعد بوسنیا کی جنگ کو یورپ کا سب سے خونی تنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی شروعات اپریل کے ابتدائی دو ہفتوں کے دوران ہوئی تھی۔ جمعے کے روز سراجیوو کے مرکزی چوک میں رکھی گئی سرخ رنگ والی خالی ہزاروں کرسیوں پر مرحومین کی یاد میں ایک ایک سفید گلاب کا پھول بھی رکھا گیا تھا۔ ان خالی کرسیوں میں چھوٹی کرسیاں ہلاک ہونے والے بچوں کی یاد میں تھی۔
گیارہ ہزار سے زائد افراد سراجیوو شہر کے محاصرے کے دورن ہلاک ہوئے تھے۔ سراجیوو کے شہریوں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خالی کرسیوں کو رکھنے سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سراجیوو کے عوام نے تین سال سے زائد رہنے والے محاصرے کے دوران کس درجہ قہر برداشت کیا تھا۔
جمعے کے روز بعد از دوپہر مقامی وقت کے مطابق دو بجے سارا شہر ساکت ہو کر رہ گیا تھا اور یہ خاموشی بوسنیا کے خونی تنازعے کے شروع ہونے کی یاد میں اختیار کی گئی تھی۔ ان تقریبات کا اہتمام خاص طور پر اس روز کیا گیا تھا جب سربیا کے مسلح نشانچیوں نے بوسنیا کے ہزاروں پر امن مظاہرین پر گولیاں برسائی تھیں۔ یورپی یونین نے چھ اپریل سن 1992 کو بوسنیا کی سابقہ یوگو سلاویہ سے علیحدگی اور آزادی کوتسلیم کیا تھا اور اسی دن اگلے ساڑھے تین برسوں تک بوسنیا میں مسلح تنازعے کے دوران بےچینی، افراتفری اور ظلم و جبر کا راج رہا۔
اس خونی تنازعے کے دوران کل ہلاک شدگان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی اور چوالیس لاکھ افراد جنگی حالات کے دوران بے گھری کا شکار ہوئے تھے۔ ان خونی حالات کے دوران سراجیوو کے شہر کو چوالیس ماہ تک زیر محاصرہ رکھا گیا تھا۔ یہ جدید تاریخ کے دوران کسی بھی شہر کا طویل ترین محاصرہ خیال کیا جاتا ہے۔ بوسنیا کے سرب فوجی شہر کی پہاڑیوں سے گولہ باری کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے اور اس دوران ماہر نشانچی اپنی کارروائوں سے شہر کے افراد کو ہلاک کرنے میں مصروف رہے۔ سراجیوو کے شہر کی عمارتوں پر اب بھی شیلنگ اور گولیوں کے نشان اُس خونی دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
اس جنگ کے دوران سن 1995 میں اقوام متحدہ کے محفوظ علاقے یا Safe Area کے ٹوٹنے پر سربرینٹسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کو بوسنیا کے سرب فوجیوں نے ہلاک کردیا تھا۔ انہی ہلاکتوں کے بعد نیٹو کی جانب سے فوجی ایکشن کا آغاز ہوا تھا۔ بوسنیا کے سرب نژاد سیاسی و فوجی لیڈر راڈووان کراچچ اور راتکو ملاڈچ سربرینٹسا میں قتل عام کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی اعلیٰ فوجداری عدالت میں اپنے خلاف شروع مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس خونی چپقلش کے بعد دو ریاستی اصول کے تحت تنازعے کا حل پیش کیا گیا۔ اب اس یورپی علاقے میں امن ضرور قائم ہو چکا ہے لیکن لوگ اس خوف و ہراس کے طویل دور کو ابھی تک بھول نہیں سکے ہیں۔
ah / ss (AFP,AP)