جنگ تباہی لائے گی، عراقی کردستان کی بغداد کو مکالمت کی پیشکش
مقبول ملک روئٹرز
25 اکتوبر 2017
نیم خود مختار عراقی کرد علاقے کی حکومت نے اس خطے کی آزادی کے ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کر دینے اور بغداد میں ملکی حکومت کو مکالمت کی پیشکش کر دی ہے۔ اس تنازعے میں اطراف کے دستوں کے مابین مسلح جھڑپیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔
اشتہار
عراقی دارالحکومت بغداد اور مصری دارالحکومت قاہرہ سے بدھ پچیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عراقی کردستان کی علاقائی حکومت نے، جو KRG کہلاتی ہے، کہا ہے کہ وہ بغداد حکومت کے مسلح دستوں کے ساتھ فوجی تصادم کے خاتمے کی کوششوں کے تحت نہ صرف اس خطے کی آزادی سے متعلق ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کر دینے پر تیار ہے بلکہ وہ اس بحران کے حل کے لیے بغداد میں مرکزی حکومت کے ساتھ مکالمت پر بھی آمادہ ہے۔
(عراقی) کردستان کی علاقائی حکومت نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اطراف کے مابین عسکری تصادم کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ کسی ایک فریق کو فتح حاصل ہو جائے۔ اس فوجی ٹکراؤ سے پورا ملک مکمل تباہی کی طرف چلا جائے گا۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس بحران کے حل کے لیے ہم عراقی حکومت اور بین الاقوامی رائے عامہ کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ لڑائی فوراﹰ بند کر دی جائے، ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کر دیا جائے اور عراقی آئین میں مہیا کردہ بنیادوں پر بغداد میں ملک کی مرکزی حکومت کے ساتھ مکالمت کا آغاز کیا جائے۔‘‘
عراقی کردستان میں اس خطے کی آزادی کے لیے ٹھیک ایک ماہ قبل پچیس ستمبر کو جو متنازعہ ریفرنڈم کرایا گیا تھا، اسے بغداد میں مرکزی حکومت نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس ریفرنڈم میں 90 فیصد کرد رائے دہندگان نے اس علاقے کی باقی ماندہ عراق سے علیحدگی اور آزادی کی حمایت کر دی تھی۔
اس وجہ سے بغداد اور عراقی کردستان کے مابین کشیدگی کے پس منظر میں گزشتہ ہفتے فریقین کے فوجی دستوں کے مابین جھڑپیں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ اس دوران عراقی حکومت نے ملک کے شمال میں طاقت کا توازن اس طرح اپنے حق میں کر لیا تھا کہ عراقی دستوں نے کردوں کے زیر انتظام کئی علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
عراقی کردستان کا علاقہ ملک کے شمال میں تین صوبوں پر مشتمل ہے، جس کا کنٹرول نیم خود مختار علاقائی حکومت کے پاس ہے۔ گزشتہ ہفتے شروع کی گئی ملکی فوج کی کارروائیوں کے دوران بغداد کے مسلح دستے اب تک شمالی عراق میں کئی علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں۔
ان علاقوں میں نہ صرف کرکوک کا شہر شامل ہے بلکہ تیل کی پیداوار کی وجہ سے بہت اہم کئی ایسے قریبی علاقے بھی، جنہیں پہلے عراقی کردوں نے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سے چھین کر اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، لیکن جو اب بغداد حکومت کے دستوں کے قبضے میں ہیں۔
عراقی فوج نے اپنی یہ عسکری مہم اس وقت شروع کی تھی، جب ملکی وزیر اعظم حیدر العبادی نے اسے یہ حکم دے دیا تھا کہ وہ تمام متنازعہ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لے۔ اس دوران العبادی نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ عراق کی ترکی کے ساتھ تمام سرحدی گزرگاہیں بھی مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہونی چاہییں۔ یہ تمام ترک عراقی سرحدی گزرگاہیں جغرافیائی طور پر عراقی کردستان کے نیم خود مختار علاقے ہی میں واقع ہیں۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘