جنگ ختم نہ ہونےکی ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے افغان
13 نومبر 2018
نومبر 2001ء میں افغانستان میں امریکی افواج اپنے افغان اتحادیوں کے ہم راہ کابل میں داخل ہوئیں تھیں، تو وہاں لوگوں نے جشن منا کر ان کا استقبال کیا تھا۔ مگر سترہ برس بعد اب افغان باشندے امریکا پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press
اشتہار
افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے سترہ برس بعد ایک مرتبہ پھر طالبان افغانستان کے قریب نصف حصے پر قابض ہیں جب کہ افغان باشندے جنگ ختم نہ ہونے کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد کرتے ہیں۔
امریکا نے اس جنگ میں 24 سو سے زائد فوجی کھوئے۔ یہ جنگ امریکا کی طویل ترین جنگوں میں سے ایک ہے، جس پر اب تک نو سو ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ یہ سرمایہ عسکری معاونت اور کارروائیوں سے لے کر افغانستان میں سڑکوں، پلوں اور بجلی گھروں کی تعمیر تک خرچ کیا گیا۔
تین امریکی صدور افغانستان کے معاملے پر فوجیوں کی تعداد میں اضافے سے فوجی انخلا تک اور طالبان کے خلاف کارروائیوں سے امن مذاکرات تک کئی مختلف طریقے استعمال کر چکے ہیں، جب کہ افغانستان میں امریکا پہلی مرتبہ ’مدر آف آل بمز‘ تک استعمال کر چکا ہے۔ تاہم اب تک افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ دوسری جانب افغان عوام اور رہنما اس بابت کئی طرح کے سازشی نظریات تک پر یقین رکھتے ہیں۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار کو حیرت ہے کہ امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اپنے فوجیوں کی تعیناتی اور ہزاروں افغان سکیورٹی اہلکاروں کی مدد کے باوجود کیوں چند ہزار طالبان کو ختم نہ کر سکا؟ ’’یا تو یہ ایسا چاہتے نہیں تھا یا کر نہ سکے۔‘‘
قاسم یار اس شبے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ امریکا اپنے اتحادی ملک پاکستان کے ساتھ دانستہ طور پر افغانستان کو غیرمستحکم کرنے میں مصروف ہے، تاکہ وہاں افراتفری موجود رہے اور افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے قیام کی راہ ہم وار رہے۔ واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی مجموعی تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ قاسم یار کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان کے ذریعے ایران، روس اور چین پر نگاہ رکھنا چاہتا ہے۔ ’امریکا نے ہمارے لیے افغانستان کو جہنم بنایا ہے، جنت نہیں۔‘‘
قالین سازی کی افغان صنعت مشکل کا شکار
افغانستان کی کارپٹ بنانے کی قدیم صنعت طالبان کے ساتھ جنگ اور پاکستان کی جانب سے سرحدی نگرانی بڑھانے کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔ گزشتہ ایک سال میں قالینوں کی فروخت میں لگ بھگ پچاس فیصد کمی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان قالین خوبصورت اور آرام دہ
افغان قالین دنیا بھر میں خوبصورتی اور اعلیٰ معیار کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اب بھی افغان اقتصادیات میں کارپٹس کی برآمدات ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی میں یہ برآمدات ستائس فیصد سے کم ہو کر چھ فیصد رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
قالین کی صنعت متاثر
جنگ، مفلسی اور ذرائع آمد ورفت کی کمی نے قالین کی صنعت کو متاثر کیا ہے جس کی تاریخ پچیس سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اپنی والدہ کو افغانستان سے قالین بھجوایا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
قالین ساز فیکٹری
کابل کی ایک قالین ساز فیکٹری میں خواتین اون بنتی ہیں اور مرد اون کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس فیکٹری کے مینیجر دلجام منان کا کہنا ہے،’’ ہم نے بہت سے خریداروں کو بلایا ہے لیکن وہ نہیں آتے کیوں کہ وہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/M. Ismail
تشدد کے واقعات میں اضافہ
افغستان میں حالیہ کچھ عرصے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سن دوہزار سولہ اور سترہ کے درمیان افغانستان کی رجسٹرڈ برآمدات میں قالینوں کی ایکسپورٹ چوتھے نمبر پر تھی اور ان کی کل مالیت 38 ملین ڈالر تھی۔ ان میں سے 85 فیصد قالین پاکستان کو برآمد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی
پہلے افغانستان میں قالین کی برآمدات 89.5 ملین ڈالر تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ اندرونی طور پر بھی افغان کارپٹوں کی مانگ غربت کے باعث نہیں بڑھ پاتی۔ بہت کم افغان شہری ستر سے ڈھائی سو ڈالر فی سکوائر میٹر قالین خرید نے کی سکت رکھتے ہیں۔ آٹھ برس قبل جب افغانستان میں نسبتاً امن تھا تب قالین کی برآمدات 150 ملین ڈالر تھی۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
پاکستانی تاجر
افغان کارپٹس، نامی ایک دکان کے مالک پرویز حسین کا کہنا ہے، ’’پاکستانی تاجر افغانستان سے کارپٹ خرید کر دس سے پندرہ فیصد کماتے ہوئے ان قالیوں کو برآمد کر دیتے ہیں۔‘‘ حسین کے بقول افغانستان میں قالینوں کو دھونے کا طریقہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کارپٹ یہاں آتے ہیں، دھلتے ہیں اور برآمد کر دیے جاتے ہیں۔ حسین کی رائے میں بہت سے افغان تاجر پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور یہاں سے قالین درآمد کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
پاکستان کے ساتھ تعلقات
پاکستان اور اس کی بندرگاہوں پر انحصار، سرحد پر بڑھتے کنٹرول اور دہشت گردوں کی در اندازی کی وجہ سے افغان تاجر مشکلات کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس طورخم بارڈر چالیس دن تک بند رہا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے
کابل میں دکاندار احسان کا کہنا ہے کہ اب کابل میں بہت کم غیر ملکی نظر آتے ہیں۔ اس کی دکان میں 50 سال پرانے قالین بھی دستیاب ہیں۔ احسان کا کہنا ہے کہ پہلے ایک دن میں وہ پانچ قالین فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن اب بہت مشکل ہے کیوں کہ یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔
ب ج/ ع ا، روئٹرز
تصویر: Reuters/M. Ismail
8 تصاویر1 | 8
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان میں اس انداز کے سازشی نظریات کی بازگشت ہر جانب سنائی دیتی ہے۔ گزشتہ ماہ قندھار پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق طالبان کے ایک حملے میں مارے گئے، تو سوشل میڈیا صارفین اس معاملے کو بھی ’امریکی سازش‘ قرار دیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حالیہ داخلی حملوں میں امریکی اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے فوجیوں کی ہلاکت پر بھی سوشل میڈیا میں جشن منایا جاتا رہا۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی کے مطابق، ’’سن 2001ء میں امریکا اور بین الاقوامی برادری کی مداخلت کو افغان عوام نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔ کچھ عرصے تک کئی چیزیں نہایت درست انداز سے چلتی رہیں۔ مگر پھر ہم نے دیکھا کہ امریکا نے اپنا راستہ تبدیل کیا یا افغان عوام کے نکتہ ہائے نگاہ اور حالات کو یکسر انداز کرنا شروع کر دیا۔‘‘