جنگ زدہ شام میں ثقافتی سرگرمیوں کی کوششیں
13 جنوری 2015بحالی کی ان ابتدائی کوششوں کے سلسلے میں قدیمی تاریخی شہر دمشق کے مشہور اوپرا ہاؤس میں موسیقی کی ہلکی پھلکی محفلیں برپا کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس اوپرا ہاؤس کا نام دارالاسد ہے کیونکہ برسوں پہلے موجودہ صدر بشار الاسد نے ہی اس کا افتتاح کیا تھا۔
جنگی حالات میں جمالیاتی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔ بحالی کے پہلے کنسرٹ میں اوپرا ہاؤس کے مغنّیوں نے ساز اور آواز کے ذریعے کلاسیکل عرب گیتوں کے ساتھ ساتھ لاطینی موسیقی بھی پیش کی۔ پہلے کنسرٹ میں کلاس اول کی ٹکٹ محض ڈیڑھ ڈالر کے برابر رکھی گئی تھی۔ قیمت کم رکھنے کی وجہ نئے سامعین کی توجہ حاصل کرنا تھا۔
دمشق کے رہائشیوں کا خیال ہے کہ حقیقت میں خراب اور پریشان کُن حالات میں اوپرا ہاؤس کی بحالی خوشگوار جھونکے کی مانند ہے۔ بیشتر نے فنکاروں اور منتظمین کی ہمت اور کاوش کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔ دمشق کے نواحی علاقے کی ایک خُوبرو نوجوان خاتون دارین نے کنسرٹ میں شرکت کے بعد کہا کہ جونہی اوپرا ہاؤس کے فنکاروں نے موسیقی کے پہلے آئٹم کے سر فضا میں چھوڑے تو وہ جنگ کے دھماکوں کو بھول کر کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔ وسطی دمشق میں قائم اوپرا ہاؤس کے اِس کنسٹرٹ کے شرکاء نے جنگی حالات سے نجات اور جمالیاتی فنون کی تمنا کا اظہار کیا۔
یہ اوپرا ہاؤس شہر کے مرکزی حصے میں واقع امیہ اسکوائر میں تعمیر کیا گیا تھا اور صدر بشارالاسد کے ہاتھوں اس کا افتتاح سن 2004 میں ہوا تھا۔ اِس کے قُرب و جوار میں فوجی اور سویلین حکومتی اداروں کی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ اِس اوپرا ہاؤس کو حکومت کی جانب سے کثیر الثقافتی سرگرمیوں کا مرکزی مقام قرار دیا گیا۔ تنازعے کے ابتدائی ایام میں اِس ثقافتی مرکز نے کسی نہ کسی طرح اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں لیکن حملوں میں شدت پیدا ہو جانے کے بعد اِسے بند کر دیا گیا اور لوگ بھی ضروری کام کاج کے بعد اپنے اپنے گھروں میں مقید ہو جانے میں اپنی عافیت سمجھنے لگے۔
دارالاسد نامی اوپرا ہاؤس کی وسیع عمارت خالصتاً جمالیاتی فنون کے لیے وقف ہے۔ اِس میں ملکی و غیرملکی کلچرل تقریبات کے ساتھ ساتھ مصوری و دستکاری مصنوعات کی نمائشوں کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ اس مرکز میں تین مختلف قسم کے بڑے بڑے ہال ہیں۔ سب سے بڑے ہال میں بارہ سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
گزشتہ مرسمِ خزاں میں ژوان کارژولی نے اوپرا ہاؤس کے چیف منتظم کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ میں مرنے والوں نے اپنی جانیں قربان کر کے ہماری زندگیاں بچا لی ہیں اور اب بڑے پیمانے پر ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ کارژولی کے مطابق رواں برس ثقافتی مرکز میں مصوری کی کئی نمائشوں کے ساتھ ساتھ ایک کتاب میلے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔