جنگ زدہ علاقوں میں روزانہ تین سو بچے مرتے ہیں، سیو دی چلڈرن
15 فروری 2019
بچوں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں روزانہ تین سو بچوں کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اس تنظیم نے اس صورت حال کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔
اشتہار
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن نے سن 2017 کے اعداد و شمار کی روشنی میں جنگ زدہ اور مسلح تنازعات کے حامل علاقوں میں ہونے والی بچوں کی اموات پر خصوصی رپورٹ جاری کی ہے۔ ان علاقوں میں تقریباً چار سو بیس ملین بچے بستے ہیں اور رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک بچے کی موت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں تاسف کے ساتھ بیان کیا گیا کہ اکیسویں صدی میں حالات کی بہتری کا پہیہ بظاہر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب گھوم رہا ہے اور اس باعث اخلاقی معیارات میں گراوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی ضوابط کا احترام کرتے ہوئے جنگ زدہ علاقوں کے متحارب فریق بچوں اور عام غیر مسلح شہریوں کو آسان ہدف بنانے سے ہر ممکن طریقے سے گریز کریں۔
سیو دی چلڈرن نے امیر ممالک اور بڑے امدادی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس افسوسناک صورت حال پر خصوصی توجہ مرکوز کر کے بچوں کی اموات میں کمی کی کوششیں کریں۔
بچوں کی ہلاکتوں والے ملکوں میں افغانستان، یمن، جنوبی سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ اور شام خاص طور پر نمایاں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان بچوں کو بھوک اور علاج کی ناکافی سہولیات کا سامنا ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کی اموات کا یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔
سیو دی چلڈرن نے یہ خصوصی رپورٹ جرمن شہر میونخ میں پندرہ سے سترہ فروری تک منعقد کی جانے والی سالانہ انٹرنیشنل سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر جاری کی ہے۔ توقع کی گئی ہے کہ کانفرنس کے شرکاء رپورٹ کے مندرجات پرتوجہ مبذول کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ رپورٹ سیو دی چلڈرن انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹو ہیلے تھورننگ شمٹ نے جاری کی ہے۔ ہیلے تھورننگ شمٹ یورپی ملک ڈنمارک کی سن 2011 سے 2015 تک وزیراعظم بھی رہ چکی ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے بھی معاونت کی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کا بھی سہارا لیا گیا۔
روسی فوجی اسکول، ’مورچوں میں بچپن‘
روس میں قائم فوجی اسکولوں میں بچے ریاضی اور تاریخ کے ساتھ ساتھ جنگی ساز و سامان کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کا مقصد ریاستی سر پرستی میں ایک عسکری اور محب وطن اشرافیہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
روشن مستقبل
آج کے دور میں اگر کوئی روسی شہری اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا خواہاں ہے، تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے ملک میں قائم دو سو سے زائد کیڈٹ اسکولوں میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کریں۔ ان اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عکسری تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کے لیے بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
مادر وطن کے لیے
اسکول میں پریڈ: ماسکو حکومت نے 2001ء میں ایک تربیتی منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد بچوں میں خصوصی طور پر وطن کے لیے محبت بڑھانا تھا۔ فوجی اسکول اور نیم فوجی کیمپس اس منصوبے کا حصہ تھے۔ اگر بچے اپنے کیڈٹ اسکول میں ایک فوجی کی طرح پریڈ کرنا چاہتے ہیں تو حب الوطنی کا جذبہ ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک قدیم روایت
جنوبی روسی علاقے اسٹاروپول کے کیڈٹ اسکول کے بچے ایک پُر وقار تقریب کے ساتھ اپنے تعلیمی سال کا آغاز کرتے ہیں۔ جیرمیلوف جیسے دیگر کیڈٹ اسکولز روس میں ایک قدیم روایت رکھتے ہیں۔ زار اور اسٹالن کے زمانے کے اشرافیہ نے انہی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وجہ سے ان اسکولوں میں داخلے کا نظام بہت سخت ہے۔ صرف ذہین اور جسمانی طور پر فٹ بچوں کے ہی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک جنرل سے منسوب
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول 2002 ء میں بنایا گیا تھا اور یہ جنرل الیکسی پیٹرووچ جیرمیلوف سے منسوب ہے۔ جنرل جیرمیلوف نے انیسویں صدی میں نیپولین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور انہیں روس میں ایک جنگی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
نظم و ضبط
اس اسکول میں تعلیم کا حصول کسی پتھریلے راستے پر چلنے سے کم نہیں۔ اگر یہ بچے ایک کامیاب فوجی بننا چاہتے ہیں تو انہیں لازمی طور پر سخت تربیت کرنا پڑتی ہے۔ ان کیڈٹس کو باکسنگ اور مارشل آرٹ سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فٹنس کے سخت مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
فائرنگ کیسے کی جاتی ہے
سخت جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو ہتھیار بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں اسلحہ بارود کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور فوجی انہیں فائرنگ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
لڑکیاں بھی خوش آمدید
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول میں لڑکیوں کو بھی اعلی فوجی بننے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح خندقیں کھودتی ہیں اور انہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی جنگل میں پھنس جائیں یا گم ہو جائیں تو وہاں سے کس طرح سے نکلا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
چھاتہ برداری
یہاں پر صرف تندرست اور ذہین ہی نہیں بلکہ بچوں کا باہمت ہونا بھی ضروری ہے۔ بہت سے والدین عام زندگی میں اپنے بچوں کو جن چیزوں سے روکتے ہیں ملٹری اسکولوں میں وہ روز مرہ کے معمول کا حصہ ہیں۔ پپراشوٹ جمپنگ اس کی ایک مثال ہے۔