جنگ سے تباہ شدہ موصل کے قریب سات لاکھ شہری تاحال بے گھر
مقبول ملک اے ایف پی
15 اکتوبر 2017
عراق میں داعش کے سابق گڑھ اور جنگ سے تباہ شدہ شہر موصل اور اس کے مضافات کے قریب سات لاکھ شہری تاحال بے گھر ہیں۔ اس شہر کو عراقی دستوں اور ان کے حامی ملیشیا گروپوں نے اس سال جولائی میں داعش کے قبضے سے آزاد کرا لیا تھا۔
اشتہار
عراقی دارالحکومت بغداد سے اتوار پندرہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس ملک میں مہاجرین اور داخلی طور پر بے گھر ہو جانے والے لاکھوں انسانوں کی مدد کرنے والی تنظیم نارویجیئن ریفیوجی کونسل نے آج بتایا کہ موصل اور اس کے نواحی علاقوں کے کئی لاکھ عراقی باشندوں کی تکالیف ابھی تک ختم نہیں ہوئیں۔
ناروے کی مہاجرین کی کونسل (NRC) نے کہا، ’’موصل کو شدت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کی جنگ ایک سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ اس شہر پر عراقی حکومتی دستوں کے قبضے تک جو قریب پونے سات لاکھ افراد اس شہر اور اس کے گرد و نواح میں اپنے گھروں سے رخصتی پر مجبور ہو گئے تھے، وہ ابھی تک مکمل تباہ ہو چکے اپنے رہائشی علاقوں کو واپس نہیں لوٹ سکے۔‘‘
موصل: جنگی محاذ پر لوگوں کی زندگی
01:16
ناروے کے مہاجرین کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنے والے اس ادارے کے مطابق ان لاکھوں عراقی شہریوں میں سے نصف سے زائد اپنی جملہ سرکاری دستاویزات سے بھی محروم ہو چکے ہیں، جن میں پیدائش کے سرٹیفیکیٹس سے لے کر جائیداد کی ملکیت کے کاغذات تک شامل تھے۔
ان حالات میں ان عراقی باشندوں کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا کر نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
عراقی شہر موصل اور اس کے نواحی علاقوں پر داعش کے جنگجوؤں نے 2014ء میں قبضہ کر لیا تھا۔
یہ قبضہ ان جہادیوں کی اس وسیع تر عسکری پیش رفت کے دوران ہوا تھا، جس کے نقطہ عروج پر داعش کو عراق اور ہمسایہ جنگ زدہ ملک شام کے وسیع تر علاقوں پر کنٹرول حاصل ہو گیا تھا۔
پھر قریب اس سال قبل جب بغداد حکومت کے مسلح دستوں نے اپنے حامی ملیشیا گروپوں کی مدد سے اس شہر کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینے کی مہم شروع کی، تو یہ لڑائی قریب نو ماہ تک جاری رہی تھی۔
پھر اس سال جولائی میں داعش کے شدت پسندوں کو عراق کے اس دوسرے سب سے بڑے شہر سے حتمی طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑ گئی تھی۔ یوں یہ شہر دوبارہ عراقی حکومت کے کنٹرول میں تو آ گیا تھا لیکن تب تک موصل کے کئی علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔
عراق میں این آر سی کی امدادی کارروائیوں کی سربراہ ہائیڈی ڈیڈرش نے اتوار کے روز کہا، ’’موصل کی جنگ ختم ہو چکی ہے۔ لیکن وہ لاکھوں انسان جو اس شہر سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے، ان کے مصائب ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔‘‘
عراق میں نارویجیئن ریفیوجی کونسل کی ڈائریکٹر ڈیڈرش کے بقول، ’’ہم جن لوگوں کی مد دکرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ابھی تک بہت سی بنیادی اشیائے ضرورت سے محروم ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ آیا وہ کبھی واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔‘‘
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘