جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کانہ صرف جنسی استحصال ہوتا ہے بلکہ مسلح گروپ ان کو اپنی تنظیموں میں شامل کرنے پر مجبور کرتے ہیں، افریقہ میں یہ صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے۔
اشتہار
بچوں کی فلاح کے لیے سرگرام بین الاقوامی ادارے سیو دی چلڈرن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سن 2018ء میں دنیا میں ہر چھ میں سے ایک بچہ جنگ زدہ علاقے میں رہتا تھا اور ایسے بچوں کی مجموعی تعداد 415 ملین تھی۔
سیو دی چلڈرن کی چیف ایگزیکٹیو انگر اشینگ نے اس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے بتایا، ”سن 2005ء سے اب تک کم از کم 95,000 بچے مارے جاچکے ہیں یا مستقل معذور ہوگئے ہیں۔ ہزاروں بچوں کا اغوا کیا گیا اور لاکھوں بچے تعلیم اورصحت کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہوگئے کیوں کہ ان کے اسکولوں یا اسپتالوں پر حملے کرکے تباہ کردیا گیا۔"
سیو دی چلڈرن نے ”بچوں کے خلاف جنگ بند کرو“ کے عنوان سے شائع کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2010ء کے بعد سے بچوں کے خلاف ”سنگین تشدد" کے واقعات میں 170فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ 2010ء کے بعد سے جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعداد 34 فیصد بڑھی ہے۔
اینگر ایشنگ کہتی ہیں کہ اگر حکومتیں بچوں کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور بچوں کے خلاف جرائم کے لیے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہیں تو ”بچوں کی زندگیاں تباہ ہونے“ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
افریقی بچے سب سے زیادہ متاثر
رپورٹ کے مطابق افریقہ میں رہنے والے بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں کیوں کہ 170ملین بچے جنگ زدہ علاقوں میں رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ مشرق وسطٰی میں ہر تین میں سے ایک بچہ جنگ زدہ علاقے میں رہتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں بچوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں مثلا ً انہیں ہلاک کیا جارہا ہے، معذور کیا جا رہا ہے، مسلح افواج میں بھرتی کیا جارہا ہے، اغوا کیا جا رہا ہے، اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، انسانی ضروریات تک رسائی سے محروم رکھا جا رہا ہے اور جنسی زیادتی یا جنسی تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے۔
انتہائی تصادم والے علاقوں میں رہنے والے سب سے زیادہ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے نائجیریا، میکسیکو، عوامی جمہوریہ کانگواور افغانستان سرفہرست ہیں۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔
9 تصاویر1 | 9
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 18 برسوں کے دوران ایک بھی بچہ امن کی حالت میں پیدا نہیں ہوا۔ یہی صورت حال عوامی جمہوریہ کانگو اور جنوبی سوڈان جیسے ملکوں کی بھی ہے۔
سیو دی چلڈرن نے اپنی رپورٹ میں افغانستان میں رہنے والے ایک دس سالہ بچے ہمت کا یہ بیان نقل کیا ہے، ”مجھے اسکول جاتے ہوئے یہ خوف ستاتا ر ہتا ہے کہ کہیں خود کش حملے کا شکار نہ ہوجاؤں یا کوئی مجھے اغوا نہ کرلے اور مجھے یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ کوئی مجھے قتل نہ کردے۔ لوگ بچوں کو مار رہے ہیں۔ ہم محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں اچھے اسکول نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ مارے جاچکے ہیں اور کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔“
صنفی امتیاز
رپورٹ کے مطابق تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ طرح کے خطرات سے دوچارہیں۔ ”لڑکیوں کو جنسی اور صنفی بنیاد پر دیگر طرح کے تشدد کا بہت زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس میں کم عمری میں اور زبردستی شادی بھی شامل ہے۔ جب کہ ”لڑکے قتل کردیے جانے یا مستقل معذور بنادیے جانے، اغوا اور مسلح گروہوں میں زبردستی بھرتی کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔“