1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

جنگ کے بعد غزہ میں سکیورٹی اسرائیل سنبھال لے گا، نیتن یاہو

7 نومبر 2023

اسرائیل اور حماس کی تاحال قریب ساڑھے گیارہ ہزار ہلاکتوں کی وجہ بننے والی جنگ کو ایک مہینہ ہو گیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جنگ کے بعد غیر معینہ عرصے کے لیے غزہ پٹی میں سکیورٹی خود اسرائیل سنبھال لے گا۔

غزہ پٹی کے علاقے میں موجودہ اسرائیلی فوجی دستے اور ان کے ٹینک
وزیر اعظم نیتن یاہو کے مطابق جنگ کے بعد اسرائیل غزہ پٹی کی مجموعی سکیورٹی ذمے داری اپنے سر لے لے گاتصویر: via REUTERS

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے مابین موجودہ جنگ کو شروع ہوئے منگل سات نومبر کے روز ٹھیک ایک مہینہ ہو گیا مگر اس تنازعے کے دوسرے مہینے میں داخل ہو جانے کے بعد بھی یہ اب تک بس شدید تر ہوتا ہوا ہی نظر آ رہا ہے۔

ساڑھے گیارہ ہزار کے قریب ہلاکتیں

سات اکتوبر کے روز اسرائیل پر عسکریت پسند تنظیم حماس کے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہونے والی یہ لڑائی اب تک مجموعی طور پر ہزارہا انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔ حماس کے دہشت گردانہ حملے میں اسرائیل میں چودہ سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

جنوبی افریقہ نے بھی اسرائیل سے تمام سفارت کاروں کو واپس بلا لیا

اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی پر جو مسلسل فضائی اور زمینی حملے شروع کیے، ان میں بھی حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اب تک دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں ہزاروں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف حماس کے جنگجو اسرائیل پر حملے کے دوران جن تقریباﹰ 240 افراد کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے تھے، وہ بھی اب تک یرغمالیوں کے طور پر حماس ہی کے قبضے میں ہیں۔

اسرائیلی فورسز کی طرف سے غزہ سٹی کی فضا میں فائر کردہ ‘فلیئرز‘تصویر: Abed Khaled/AP Photo/picture alliance

’غزہ پٹی کی سکیورٹی آئندہ اسرائیل کی ذمے داری‘

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ موجودہ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں سلامتی امور کی مجموعی ذمے داری غیر معینہ مدت کے لیے اسرائیل اپنے سر لے لے گا۔

'اب بہت ہو چکا، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے،‘ اقوام متحدہ

بینجمن نیتن یاہو نے یہ بات ایک امریکی ٹی وی سے گزشتہ رات نشر ہونے والے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہی۔ ان کے الفاظ میں اگر اسرائیل نے ایسا نہ کیا تو پھر حماس کی دہشت گردی ناقابل تصور حد  تک پھیل جائے گی۔

حماس کو یورپی یونین کے علاوہ امریکہ اور کئی دیگر ممالک نے بھی باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

اس جنگ میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں کے باعث اب تک نا صرف وسیع تر تباہی ہوئی ہے بلکہ غزہ کے شمالی حصے سے جنوب کی طرف نقل مکانی کرنے والوں باشندوں کی تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔ غزہ کے یہ باشندے ایسا اپنی جانیں بچانے کے لیے یا اسرائیلی فوج کی طرف سے بار بار کی جانے والی ہدایات کے بعد کر رہے ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ غزہ کی شہری آبادی شمال سے جنوب کی طرف منتقل ہو جائے۔

محاصرہ شدہ غزہ پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، اسرائیلی فوج

غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے کا وسیع تر شمالی حصہ اسرائیلی فضائی حملوں سے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہےتصویر: Bashar Taleb/APA/ZUMa/picture alliance

اسی دوران آج منگل کے روز اسرائیلی دفاعی افواج نے شمالی غزہ میں اب تک موجود عام باشندوں کو جنوب کی طرف چلے جانے کے لیے چار گھنٹے کی مہلت دینے کا اعلان کیا۔

’تمام یرغمالیوں کی رہائی تک جنگ بندی نہیں ہو گی‘

ایک امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے تازہ انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ جب تک حماس کی طرف سے تمام 240 یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جاتا، تب تک کوئی عمومی جنگ بندی ممکن نہیں ہو گی۔

اسرائیلی سربراہ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے ساتھ موجودہ حالات میں ایک عمومی فائر بندی کے تو خلاف ہیں تاہم وہ اس لڑائی میں 'مختصر ٹیکٹیکل وقفوں‘ کے امکانات پر بات کر سکتے ہیں۔

غزہ میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 4000 سے متجاوز

دریں اثنا اسرائیلی دفاعی افواج نے منگل کے روز کہا کہ غزہ پٹی کے شمال میں حماس کے ایک عسکری مرکز کو اسرائیلی دستوں نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کو حماس کے اس عسکری گڑھ سے ٹینک شکن میزائل، راکٹ لانچر اور دیگر ہتھیاروں کے علاوہ انٹیلیجنس کے لیے استعمال ہونے والا مواد بھی ملا۔

اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کا ایک ماہ پورا ہونے پر تل ابیب میں عام شہری ایک منٹ کی خاموشی اختیار کیے ہوئےتصویر: Amir Levy/Getty Images

غزہ سے مزید سینکڑوں افراد کا رفح کے راستے انخلا

بحران زدہ غزہ پٹی میں اب بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسے غیر ملکی اور دوہری شہریت کے حامل فلسطینی پھنسے ہوئے ہیں، جو وہاں سے رفح کی سرحدی گزرگاہ کے راستے مصر جانا چاہتے ہیں۔

ایسے غیر ملکیوں اور دوہری شہریت کے حامل فلسطینیوں کا غزہ سے وقفے وقفے سے انخلا مخصوص شرائط کے تحت اور محدود تعداد میں ابھی چند دن پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ منگل سات نومبر کو بھی اس سرحدی گزرگاہ کے راستے مزید سینکڑوں غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والے فلسطینیوں کو مصر پہنچنا تھا۔

حماس کا عسکری ونگ القسام بریگیڈز کیا ہے؟

فلسطینی بارڈر اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے مطابق جن تقریباً چھ سو افراد کو آج رفح بارڈر کراسنگ پار کرنا تھی، ان میں ڈیڑھ سو کے قریب جرمن شہری بھی شامل تھے۔ ان سینکڑوں غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والے دیگر باشندوں میں زیادہ تعداد فرانس، کینیڈا، یوکرین، رومانیہ اور فلپائن کے شہریوں کی تھی۔

غزہ: جبالیہ مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملے میں درجنوں ہلاکتیں

02:20

This browser does not support the video element.

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا مشرق وسطیٰ کا نیا دورہ

اقوام متحدہ اور اس کے بہت سے ذیلی اداروں کی طرف سے گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری فائر بندی کی جائے تاکہ لاکھوں سویلین متاثرین کی ہنگامی طور پر مدد کی جا سکے اور غزہ پٹی میں امدادی سامان بھی پہنچایا جا سکے۔

ایمبولینسوں پر اسرائیلی حملے سے ’خوفزدہ‘ ہوں، اقوام متحدہ کے سربراہ

اس پس منظر میں عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک اب مشرق وسطیٰ کے اپنے پانچ روزہ نئے دورے کے آغاز پر مصر پہنچ گئے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ رفح کی سرحدی گزرگاہ کا دورہ بھی کرنا چاہتے ہیں اور کل بدھ کے روز وہ اردن کے دارالحکومت عمان میں ملکی حکام اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کریں گے۔

اسرائیلی ٹینک اور فوجی غزہ پٹی کے اندر تک پہنچ گئے، اسرائیل

مصر پہنچنے پر فولکر ترک نے اسرائیل اور حماس کی جنگ کا ایک مہینہ پورا ہو جانے کی مناسبت سے اپنے ایک بیان میں کہا، ''(جنگ کا) یہ ایک پورا مہینہ انتہائی خونریز، بے تحاشا مصائب، تباہی، ناامیدی اور شدید پریشانی کا مہینہ ثابت ہوا ہے۔‘‘

م م / ک م، ع ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

مصر اور اردن اپنے ہاں فلسطینی مہاجرین کیوں نہیں چاہتے؟

01:51

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں