جن سے اختلاف ہے، ان سے بات کریں: جرمن صدر کا پیغام
24 دسمبر 2018
جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے کرسمس کے مسیحی تہوار کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جرمن عوام کو اپنے ملک میں جمہوریت کو مکالمت کے ذریعے مزید مضبوط بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’جن سے اختلاف ہے، ان سے بات کریں۔‘‘
اشتہار
وفاقی جرمن سربراہ مملکت شٹائن مائر نے کرسمس سے ایک روز قبل پیر چوبیس دسمبر کو اپنے ہم وطن باشندوں سے سالانہ خطاب میں کہا کہ جرمن عوام مصالحت پر آمادگی کے ساتھ اس سماجی تقسیم کا راستہ روک سکتے ہیں، جس کا اس وقت جرمن معاشرے کو سامنا ہے۔
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
9 تصاویر1 | 9
فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا کہ اس وقت کئی ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی معاشرے کے مختلف طبقات آپس میں مکالمت کا راستہ ترک کر دیں، تو نتائج کیا نکلتے ہیں۔
انہوں نے اس سلسلے میں فرانس میں کئی ہفتوں سے جاری پرتشدد عوامی مظاہروں، امریکا میں پائی جانے والی گہری سیاسی تقسیم اور برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج یا بریگزٹ کے باعث پائی جانے والی واضح عوامی دھڑے بندی کا بھی خاص طور پر ذکر کیا۔
اپنے کرسمس پیغام میں جرمن صدر شٹائن مائر نے کہا کہ جہاں دوسروں کے بارے میں لاعلمی ہو اور آگہی کا فقدان ہو، وہاں کئی طرح کے خوف جنم لینے لگتے ہیں۔ لیکن خوف کے ایسے احساسات پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے تمام نسلی، مذہبی اور سماجی طبقات آپس میں مکالمت کی راہ اختیار کریں۔
صدر شٹائن مائر نے کہا، ’’جرمنی اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کے مختلف سماجی دھارے ایک دوسرے سے دور ہٹنے لگیں۔‘‘ جرمن سربراہ مملکت نے یہ اعتراف بھی کیا کہ چند روز بعد ختم ہونے والے سال 2018ء میں جرمنی میں سیاسی اور سماجی سطح پر پایا جانے والا اختلاف رائے بہت بلند آواز اور شدید ہو گیا۔ تاہم اس سماجی تقسیم اور سیاستدانوں اور عوام کے مابین پائے جانے والے دوری کے احساس کا علاج یہی ہے کہ عوام بحیثیت مجموعی اختلاف رائے کے بارے میں مثبت رویے اپنائیں۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
صدر شٹائن مائر نے اپنے پیغام میں کہا، ’’یہی دوری اور معاشرتی غصہ سوشل میڈیا سے لے کر عوامی زندگی تک میں نظر آتے ہیں۔ ان کا تدارک اس طرح ممکن ہے کہ جن سماجی طبقات کی سوچ کے ساتھ اختلاف رائے پایا جاتا ہو، انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ’مختلف سوچ کے حامل‘ ایسے طبقات کے ساتھ بات چیت اور سماجی مکالمت کو ہی اپنا راستہ بنایا جائے۔‘‘
فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا کہ سماجی وحدت اور مجموعی اتفاق رائے اس وقت ممکن ہوتے ہیں، جب عوام انفرادی اور اجتماعی سطح پر مصالحت پسندی کی سوچ اپنائیں اور دوسروں کو اختلافی سوچ کا حق دیتے ہوئے تعمیری رویے اپنائے جائیں۔
جرمنی میں سال رواں کے دوران مہاجرین مخالف سیاسی قوتوں اور اسلام مخالف سوچ کے کافی حد تک پھیلاؤ کے تناظر میں صدر شٹائن مائر نے کہا کہ یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو مزید فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا، ’’جرمن عوام اپنے وطن میں جمہوریت کو مزید فروغ اس طرح دے سکتے ہیں کہ آپس میں ہر موضوع پر مکالمت کی جائے۔‘‘
کرسٹوف شٹرک / م م / ع ا
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد، ثقافتوں کا امتزاج
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔