جن کشتیوں پر یورپ پہنچے انہی سے فیشن مصنوعات بنانے لگے
24 جولائی 2018
جب پاکستانی تارک وطن عابد علی نے سن 2015 میں سمندر کے راستے یورپ آنے کے لیے ربر کی کشتی میں سفر کرنے کا خطرہ مول لیا تھا، تب انہیں علم نہیں تھا کہ ایک دن برلن میں وہ انہی کشتیوں کی باقیات سے فیشن مصنوعات بنا رہے ہوں گے۔
اشتہار
پاکستان سے ترک وطن کر کے جرمنی پہنچنے والے تارک وطن پیشے کے اعتبار سے درزی ہیں۔ علی اس وقت برلن میں قائم ’ممکری‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ممکری کی ورکشاپ میں یونان کے ساحلوں سے ملی ایسی ربر کی کشتیوں کو کاٹ پیٹ کر ربر سے بیگ اور اسنیکر جوتے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ کشتیاں ترکی سے سمندر کے راستے یونان آنے والے تارکین وطن چھوڑ جاتے ہیں۔
سن 2015 میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین یورپ اور بالخصوص جرمنی پہنچے تھے۔ جس باعث مہاجرت یورپ کے لیے ایک بنیادی مسئلہ بن گیا ہے۔
ربر کی کشتیوں سے فیشن مصنوعات تیار کر کے ’ممکری‘ مہاجرین کے لیے نہ صرف ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہے بلکہ جرمن باشندوں کو تارکین وطن کے ہنر سے بھی روشناس کرانا چاہتی ہے۔
ممکری کی برلن ورکشاپ میں پاکستانی مہاجر عابد علی ربر کے ایک بڑے ٹکڑے کو کاٹنے سے پہلے بہت احتیاط سے سائز کے مطابق ماپتے ہیں اور پھر اسے ایک خوبصورت بیگ کی شکل دینے کے لیے سلائی مشین کا استعمال بڑی مہارت سے کرتے ہیں۔
علی کا کہنا ہے،’’ ہاں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ انہی کشتیوں میں سے ایک میں سفر کر کے میں یورپ پہنچا تھا لیکن اب میں ان پر کام کرنے کا عادی ہو گیا ہوں۔‘‘
ممکری کی بانی خاتون ویرا گوئنتھر اور اُن کی ساتھی نورا اساؤئی کو ممکری بنانے کا خیال اس وقت آیا جب وہ یونانی جزیرے چیوس پر پہنچنے والے تارکین وطن کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کر رہی تھیں۔
گوئتھر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ ہم یونانی ساحلوں پر بے کار پڑی کشتیوں کو استعمال میں لانا چاہتے ہیں اور اس سے اُن مہاجرین کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے چاہتے ہیں جو ابھی یہاں نئے ہیں لیکن باہنر ہیں۔‘‘
ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سن 2015 میں سمندر کے راستے یورپ آنے والے تارکین وطن کی یونانی ساحلوں پر چھوڑی ہوئی ربر کی کشتیوں اور پلاسٹک کی لائف جیکٹوں کا کچرا مہاجرین کے بحران کی بھولی ہوئی کہانی ہے، جس کے لیے وہاں کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی جامع نظام نہیں بنایا گیا ہے۔
ص ح / ع ت / روئٹرز
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔