’ریاض کی طرف جھکاؤ کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں‘
عبدالستار، اسلام آباد
24 مئی 2019
ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر آج جمعہ 24 مئی کو وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کیں ہیں، جس میں ان ملاقاتوں کا خوشگوار تاثر دیا گیا ہے۔
اشتہار
تاہم ماہرین کاخیال ہے کہ خطے کی موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے پاس سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شاہ محمود قریشی اور پاکستانی وفد کی جواد ظریف سے ملاقات کے دوران پاکستانی وزیرِ خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد خطے میں امن کی کوششیں جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل سفارتی سطح پر چاہتا ہے اور یہ کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنا مصالحانہ کردار جاری رکھے گا۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی نازک معاشی صورتِ حال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام آباد کوئی مصالحانہ کردار ادا کر سکے اور یہ کہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں ریاض کے ساتھ کھڑا ہو۔
خارجہ امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوامِ متحدہ شمشاد احمد خان کے خیال میں پاکستان کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے: ’’ہماری خواہش ہے کہ ہم ایران کی مدد کر سکیں کیونکہ اس کے ساتھ ہمارا طویل باڈر ہے اور وہ ہمارے لیے اہم ہے لیکن موجودہ حکومت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سعودی عرب نے ہمیشہ ہماری مدد کی ہے اور ابھی بھی تاخیری ادائیگی پر تین بلین ڈالرز سے زیادہ کا تیل دینے کی پیش کش کی ہے۔ تین بلین ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لیے دیے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی وہاں کام کرتے ہیں اور زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں۔ تو ریاض سے پاکستان کو بہت سے فائدے ہیں۔ ایران سے تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں مل سکتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ریاض کے برعکس تہران کی کچھ پالیسیوں سے پاکستان میں ناراضگی بھی رہی ہے: ’’ماضی میں ایران کی کچھ پالیسیاں ایسی رہی ہیں، جن پر ہم کو شدید تحفظات تھے جب کہ سعودی عرب سے تو ہمارے تعلقات کی نوعیت یہ ہے کہ اگر سعودی عرب کو خطرہ ہوا تو ہم اپنی فوجیں بھی بھیج سکتے ہیں کیونکہ ان سے ہمارے اسٹریجک تعلقات ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان ایران کی خاطر سعودی عرب یا کسی اور طاقت ور ملک کی برائی مول نہیں لے گا اور ہر قیمت پر اپنے مفاد کا تحفظ کرے گا۔‘‘
ماضی میں عمران خان نے علاقائی جنگوں میں فریق بننے کی بھر پور مخالفت کی تھی اور انہوں نے یمن فوج بھیجنے کے مسئلے پر بھی نواز شریف حکومت کو خبردار کیا تھا۔ بعد میں پارلیمنٹ میں پاکستانی فوج یمن بھیجنے کے خلاف قرارداد پاس کی تھی۔ کئی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف حکومت کے دور میں اسلام آباد نے کسی حد تک اپنی غیر جانبداری قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت کا تمام دعووں کے باوجود جھکاؤ ریاض کی طرف ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں جواد ظریف اپنے تحفظات لے کر پاکستان آئے ہیں لیکن لگتا نہیں کہ اسلام آباد ان تحفظات کو مکمل طور پر ختم کر پائے گا: ’’ایران غالباﹰ چاہتا ہے کہ کسی امریکی مداخلت کی صورت میں پاکستان کوئی لاجسٹکس سپورٹ یا اپنی کوئی ایئر بیس واشنگٹن یا اس کے اتحادیوں کو نہ دے۔ اس کے علاوہ جیشِ العدل کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن میرا خیال نہیں کہ پاکستان ایسا کوئی وعدہ کرے گا جو ریاض کو ناراض کرے۔ البتہ اس حوالے سے تہران کو تسلیاں ضرور دے گا۔ تو یہ واضح ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں اسلام آباد کا جھکاؤ ریاض کی طرف ہے۔‘‘
دوسری طرف ایران کے پریس ٹی وی کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف پاکستان یہ تجویز لے کر گئے ہیں کہ گوادر اور چابہار بندرگاہ کو جوڑ دیا جائے۔ پاکستان میں دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے: ’’گوادر پر چینی کام کر رہے ہیں جب کہ سعودی عرب بھی وہاں کوئی بیس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چابہار بھارت کے پاس ہے، جو سی پیک کا دشمن ہے۔ وہ تو اس بات کے بھی خلاف ہے کہ سی پیک کو گلگت بلتستان سے گزارا جائے۔ تو ممکن ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے یہ تجویز پاکستان کے سامنے رکھی ہو۔ لیکن اس پر عمل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک چابہار پر بھارت ہے۔ اگر بھارت وہاں سے ہٹ جاتا ہے، تو پھر اس پر بات چیت ہو سکتی ہے لیکن بھارت کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔