جوان ماں نے ایک ایک کر کے تین کم سن بیٹیوں کے ٹکڑے کر دیے
20 مئی 2020
مشرقی فلپائن میں ایک جوان ماں نے اپنی تین کم سن بیٹیوں کو ایک ایک کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ صرف چار ماہ سے لے کر پانچ سال تک کی عمر کی ان بچیوں کو قتل کرنے کے بعد اس خاتون نے خودکشی کی کوشش بھی کی، جو ناکام رہی۔
اشتہار
فلپائن کے دارالحکومت منیلا سے بدھ بیس مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایک 28 سالہ عورت کے ہاتھوں، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، اپنی ہی تین معصوم بیٹیوں کے انتہائی سفاکانہ قتل کا یہ ہولناک واقعہ منیلا سے تقریباﹰ 210 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف کامارینس نورٹے نامی صوبے کے قصبے باسُود میں پیش آیا۔
پولیس کے مطابق اس خاتون نے اپنی تینوں بچیوں کو ایک بڑے اور انتہائی تیز دھار آلے سے قتل کرنے کے بعد اسی آلے سے خود اپنی جان لینے کی کوشش بھی کی، مگر کامیاب نہ ہو سکی۔
ملزمہ کو شدید زخمی حالت میں قریبی قصبے دائت کے ایک ہسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں اس کا علاج جاری ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق مشتبہ قاتلہ کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
قتل کی جانے والی بچیوں کی عمریں چار ماہ، پونے دو سال اور پانچ سال بتائی گئی ہیں۔ مقامی پولیس کی طرف سے بتایا گیا کہ اس خاتون کے چند ہمسایہ گھرانے اس وقت پریشان ہو گئے تھے جب انہوں نے اس خاتون کے گھر سے بچوں کے مسلسل رونے کی آوازیں سنی تھیں۔
فلپائن: حد سے زیادہ بھری جیلیں: ایک ’جہنم‘ کی چند جھلکیاں
فلپائن میں صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے ملک میں منشیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جو مہم شروع کی ہے، اُس کی وجہ سے جیلوں میں اب تِل دھرنے کو جگہ باقی نہیں رہی۔ دارالحکومت منیلا کے قریب ’سِٹی جیل‘ کے ’ہولناک‘ مناظر۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
کھلے آسمان تلے قید
جن قیدیوں کو کوٹھڑیوں کے اندر جگہ نہیں ملتی، اُنہیں کھلے آسمان تلے سونا پڑتا ہے۔ آج کل فلپائن میں بارشوں کا موسم ہے۔ ایک طرف انتہا کی گرمی ہے اور دوسری طرف تقریباً ہر روز بارش بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
سونے کا ’کئی منزلہ‘ اہتمام
ایسے میں وہ قیدی خوش قسمت ہیں، جن کے پاس اس طرح کا کوئی جھُولا ہے، جسے وہ بستر کی شکل دے سکتے ہیں۔ ساٹھ برس پہلے تعمیر کی جانے والی اس جیل میں صرف آٹھ سو قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن آج کل یہاں تین ہزار آٹھ سو قیدی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
ہو گا کوئی کمرہ، جہاں ’سانس لی جا سکتی ہو گی‘
اس جیل کا ہر کونا کھُدرا کسی نہ کسی کے قبضے میں ہے۔ زیادہ تر قیدی انتہائی پتلی چادروں پر یا پھر کنکریٹ کے ننگے فرش پر سونے پر مجبور ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
طاقتور رہنا چاہیے
ایک قیدی ’ایکسرسائز روم‘ میں ورزش کرتے ہوئے اپنے پٹھے مضبوط بنا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
سخت قواعد و ضوابط
جگہ جگہ لگی تختیاں جیل کے قواعد و ضوابط کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ ہتھکڑیاں پہنے یہ قیدی اپنے مقدمات کی کارروائی کے منتظر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
صفائی ستھرائی کی ’سروس‘
ایک قیدی ٹائلٹ صاف کر رہا ہے جبکہ دوسرے قیدی کسی نہ کسی طرح اپنا وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
نہانے دھونے کا کمرہ
ان قیدیوں کو اپنے پسینے، بدبو اور غلاظت سے نجات حاصل کرنے کے مواقع کبھی کبھی ہی ملتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
ایک اور مشکل رات
ایک پہرے دار شام کو ایک گیٹ کو تالا لگا رہا ہے جبکہ سلاخوں کے پیچھے لیٹے ہوئے قیدی گنجائش سے کہیں زیادہ نفوس پر مشتمل اس جیل میں ایک اور رات گزارنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Celis
کوئی سمجھوتہ نہیں
ان ’غیر انسانی‘ حالات کے لیے نو منتخب صدر ڈوٹیرٹے کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے، جنہوں نے منشیات کے خلاف ایک ’بے رحمانہ‘ مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ منشیات کے عادی لوگوں کو مار ڈالیں، جس پر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں لوگوں کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ عدالتی نظام چھ لاکھ ڈیلرز اور نشئیوں کے خلاف مقدمات کے باعث دباؤ میں ہے۔
تصویر: Imago/Kyodo News
9 تصاویر1 | 9
ابتدائی چھان بین کے نتائج کے مطابق ملزمہ مبینہ طور پر پوسٹ پارٹم ڈپریشن یا پی پی ڈی نامی نفسیاتی مرض کا شکار ہے۔
اس مرض کو پوسٹ نیٹل یا زچگی کے بعد کا ڈپریشن بھی کہا جاتا ہے۔ بہت کم واقعات میں لیکن اپنی انتہائی صورت میں یہ نفسیاتی بیماری بہت جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی گھرانے میں زچگی کے بعد اس ڈپریشن کا شکار لازمی نہیں کہ زچہ ہی بنے۔ اس کا شکار نومولود بچوں کا باپ اور زچہ کا شوہر یا شریک حیات بھی ہو سکتا ہے۔
ڈپریشن کی یہ حالت زچگی کے ایک ہفتے بعد سے لے کر ایک ماہ بعد تک بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انتہائی حالات میں اس کا نومولود بچے یا بچوں پر اثر بھی انتہائی منفی ہو سکتا ہے۔
جس وقت ملزمہ نے اپنی تینوں بچیوں کو قتل کیا، اس وقت ان لڑکیوں کا باپ گھر پر نہیں تھا۔
م م / ع ا (ڈی پی اے)
ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے سات آزمودہ طریقے
’سٹریس‘ یا ذہنی دباؤ بہت سی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ اس سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، دل کمزور ہو جاتا ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان سات مشوروں پر عمل کریں اور ٹینشن اور ذہنی دباؤ سے نجات پائیں۔
تصویر: Fotolia
ورزش کریں
اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جاگنگ اور سائیکلنگ کرنے سے ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ورزش کرنے سے اعصابی نظام اینڈروفین نامی ہارمون چھوڑتا ہے، جو آپ کے اندر خوشی اور پھرتی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ جاگنگ یا سائیکلنگ وغیرہ کرتے ہوئے کسی کے ساتھ مقابلہ نہ کریں کیونکہ اس سے بھی ’اسٹریس‘ والے ہارمون کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
تصویر: Colourbox/PetraD
توجہ مرکوز کریں
مراقبے، یوگا اور سانس کی مشقوں سے بھی ذہنی دباؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پٹھوں کو آرام دینے والی مختلف طرح کی تھیراپی سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ مالش اور مساج بھی کروا سکتے ہیں۔ یہ چیزیں بہت زیادہ ذہنی تناؤ کی صورت میں بھی بے انتہا مفید ثابت ہوئی ہیں۔
تصویر: Colourbox/Pressmaster
پُرسکون جگہ تلاش کریں
اگر آپ کے گھر میں کوئی پُرسکون کمرہ ہے تو دن میں پندرہ تا بیس منٹ وہاں ضرور گزاریں۔ بڑے شہروں میں اکثر گھروں میں سکون نہیں مل پاتا۔ آپ کسی میوزیم، لائبریری یا پھر عبادت کی جگہ پر بھی جا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ کئی بار خاموشی ہی بڑے سے بڑے مرض کی دوا بن جاتی ہے۔
تصویر: Colourbox/A. Mijatovic
فطرت سے قربت
ہالینڈ کے محققین نے پتہ چلایا ہے کہ سبز رنگ انسان پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے اور اسے سکون کا احساس دیتا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ جو لوگ کسی پارک کے قریب رہتے ہیں یا جن کے گھر میں صحن ہوتا ہے، ان کی ذہنی صحت دیگر لوگوں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے۔ کسی سر سبز جگہ کی سیر کرنے ضرور جایا کریں۔
تصویر: Colourbox
کچھ بھی نہ کریں
زیادہ تر لوگوں کا معمول ہی یہ بن جاتا ہے کہ دن بھر دفتر اور اس کے بعد کا وقت دوستوں اور رشتہ داروں کے درمیان۔ لیکن اگر آپ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، تو کچھ وقت صرف اور صرف اپنے ساتھ بھی گزاریں۔ لوگوں کا ساتھ آپ کے لیے باعثِ مسرت ہونا چاہیے نہ کہ ذہنی دباؤ کا سبب۔ اگر موڈ نہیں ہے تو کسی کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے گھبرائیں نہیں۔
تصویر: Colourbox
وقفے لیں
دن بھر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے رہنے سے خون میں تناؤ پیدا کرنے والے ہارمونز کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے درمیان درمیان میں وقفے کرنے چاہییں۔ کچھ دیر تازہ ہوا میں ٹہل کر آئیں۔ پٹھوں کو پُرسکون رکھنے کی ورزش سے بھی بہت فرق پڑتا ہے اور انسان خود کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔
تصویر: Colourbox
خوب آرام کریں
نیند پوری نہ ہونا بھی ذہنی دباؤ کی ایک وجہ بنتا ہے۔ ایک بالغ شخص کو سات سے لے کر نو گھنٹے تک کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیند میں ہی آپ کے دماغ کی صفائی بھی ہوتی ہے اور قدرتی طور پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ کسی ہوا دار کمرے میں سوئیں اور ایسی چیزوں (مثلاً کسی کے خراٹوں) سے بچنے کی کوشش کریں، جو نیند میں خلل کا باعث بن سکتی ہوں۔