جولیان آسانج کے گرد گھیرا تنگ
6 دسمبر 2010مارک نے لندن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ برطانوی پولیس کو سویڈن کی جانب سے آسانج کی حوالگی کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق برطانوی پولیس کو ان کی گرفتاری کے وارنٹس بھی موصول ہوچکے ہیں۔ وکی لیکس کے بانی پر سویڈن میں جنسی زیادتی کے سلسلے میں مقدمہ درج ہے۔ سویڈش حکام نے اس معاملے کی تفتیش کا عمل ایک مرتبہ چھوڑ کر دوبارہ شروع کیا ہے، جس پر آسانج کے وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے۔
ان کے وکیل کے بقول، ’ برطانوی پولیس نے جولیان آسانج سے ملنے کی درخواست کی ہے، ان پر کوئی جرم نہیں عائد کیا گیا اور ہم اب ان کوششوں میں ہیں کہ اس سوال و جواب کے سلسلے کا انتظام کرسکیں۔‘
بتایا جارہا ہے کہ آسانج کی ممکنہ گرفتاری اور سویڈن حوالگی کے خلاف برطانوی عدالت میں اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ سٹاک ہوم میں سویڈش حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں تمام تر قانونی پیچیدگیوں کے بعد برطانوی پولیس کو درکار معلومات فراہم کردی گئی ہیں۔
دریں اثناء بین الاقوامی سطح پر متنازعہ ویب سائٹ وکی لیکس پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے ایک سرکاری بینک Swiss Post نے وکی لیکس کے لئے چندہ جمع کرنے کے غرض سے کھولے گئے اکاؤنٹ کو بند کردیا ہے۔ سوئس حکام کے مطابق یہ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ آسانج وہاں کا شہری نہیں۔ وکی لیکس کے بقول اس اکاونٹ میں 31ہزار یورو کے اثاثے موجود تھے۔ آسانج کے آبائی ملک آسٹریلیا کے حکام نے بھی کہا ہے کہ وہ اس غور و خوص میں مصروف ہیں کہ کہیں آسانج نے وہاں کا کوئی قانون تو نہیں توڑا۔
وکی لیکس کے بانی عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق امریکی خفیہ دستاویزات اور امریکی سفارتی کیبلز کو عام کرنے کے بعد منظر عام سے غائب ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق یہ 39 سالہ آسٹریلوی شہری انگلینڈ ہی میں ہے۔ حال ہی میں دنیا بھر میں پھیلے امریکی سفارتی مراکز سے واشنگٹن بھیجے گئے پیغامات عام کرنے کے بعد آسانج کو عالمگیر شہرت ملی ہے۔ امریکی حکام عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ سرکاری معلومات عام کرنے کی پاداش میں آسانج پر مقدمہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
دوسری طرف وکی لیکس بدستور خفیہ سرکاری امریکی دستاویزات عام کئے جارہی ہے۔ سفارتی کیبلز کے بعد اب مختلف ممالک کی ایسی تنصیبات کی فہرست عام کی گئی ہے، جسے امریکہ اہم تصور کرتا ہے۔ ان میں دنیا بھر میں پھیلے قدرتی وسائل کے ذخائر کے علاوہ اہم معاشی و اقتصادی مقامات کی معلومات موجود ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان پی جے کراؤلی کا کہنا ہے کہ یہ معلومات نیک نیتی کی بنیاد پر خفیہ رکھی جاتی ہے۔’ ان کا عام کرنا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے، یہ ایسی تنصیبات ہیں، جو ہمارے اور دوسرے ممالک کی معیشت کو معاونت فراہم کرتی ہیں‘۔ ان کے بقول یہ فہرست القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیم کے لئے اہداف کی فہرست کے طور پر استعمال ہوسکتی ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ