1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جولیان اسانج کی ممکنہ ملک بدری، فیصلہ بدھ کو

KIshwar Mustafa28 مئی 2012

وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو آئندہ بدھ کے روز علم ہو جائے گا کہ آیا ایک طویل قانونی جنگ کے بعد انہیں برطانیہ سے ملک بدر کر کے سویڈن کے حوالے کر دیا جائے گا۔

تصویر: dapd

اس بارے میں فیصلہ اعلیٰ ترین برطانوی عدالت سنائے گی۔ برطانوی قانون کے مطابق اسانج کی طرف سے دائر کردہ اپیل پر حتمی فیصلے کی جگہ برطانیہ ہی ہے، جہاں وہ دسمبر 2010ء میں گرفتاری کے یورپی وارنٹ کے تحت حراست میں لیے گئے تھے۔ سویڈن میں اسانج عصمت دری اور جنسی حملے کے الزامات کے تحت پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ہیں۔ 2010ء میں گرفتار ہونے کے بعد سے وسطی لندن میں اعلیٰ ترین برطانوی عدالت کی طرف سے فیصلے کے منتظر اسانج مسلسل قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

آج پیر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق پرسوں بدھ کو متعلقہ برطانوی کورٹ عالمی وقت کے مطابق صبح آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ یہ کارروائی صرف 10 منٹ میں مکمل ہو جائے گی اور فیصلہ سکائی نیوز کی ویب سائٹ پر اسٹریمنگ کے ذریعے سننا جا سکے گا اور اسے فوری طور پر آن لائن شائع بھی کر دیا جائے گا۔

جولیان اسانج لندن کی عدالت میںتصویر: dapd

بدھ کو یہ فیصلہ سنائے جانے تک اسانج کی نقل و حرکت پر پابندی کے 540 دن پورے ہو جائیں گے۔ اسانج کیس کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سویڈن کے جس پروسیکیوٹر نے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے، اس کے پاس کوئی عدالتی اتھارٹی نہیں ہے۔ بدھ کو وسطی لندن میں واقع برطانوی سپریم کورٹ کے سربراہ سویڈن کی اپیل کی قانونی حیثیت کے بارے میں ایک بریفنگ دیں گے۔ اس کے بعد اس پر لندن کورٹ کا فیصلہ سنایا جائے گا اور اس کی منطقی وضاحت پیش کی جائے گی۔

قبل ازیں 2011ء میں لندن کی ایک زیریں عدالت نے اسانج کو ملک بدر کر کے سویڈن بھیجنے سے متعلق ایک اپیل کی منظوری دے دی تھی۔ تاہم اسی سال نومبر میں اس اپیل کو ہائی کورٹ نے رد کر دیا تھا تاہم آخر کار معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا تھا۔ اب اگر سپریم کورٹ نے اسانج کی اپیل کو رد کر دیا تو اسانج کے پاس برطانیہ میں مزید کسی عدالتی اپیل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ تاہم وہ اسٹراس بُرگ میں قائم انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں آخری موقع کے طور پر ایک اپیل بہرحال دائر کر سکتے ہیں۔

بریڈلی میننگ کی رہائی کا مطالبہتصویر: picture alliance/dpa

دریں اثناء اسانج نے ان خطرات کا اظہار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر انہیں امریکا منتقل کر دیا جائے گا جہاں امریکی فوجی بریڈلی میننگ کو وکی لیکس کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ اس ضمن میں 23 مئی کو اسانج نے لندن میں ایک ماسک پہن کر ایک اسکریننگ بھی کروائی تھی۔

انٹرنیٹ پرانتہائی خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے والے 40 سالہ اسانج کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور ان پر سویڈن میں جنسی جرائم کے الزامات کے تحت مقدمات قائم ہیں۔ ان مقدمات میں کہا گیا ہے کہ اسانج نے وکی لیکس کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ تاہم اسانج ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ مقدمات سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل امن کے لیے کام کرنے والے ایک آسٹریلوی ادارے سڈنی پیس فاؤنڈیشن کی طرف سے وکی لیکس کے سربراہ کو’غیر معمولی ہمت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد‘ پر سونے کا تمغہ بھی دیا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی اس ادارے کی جانب سے اسانج کو 'صدیوں سے جاری سرکاری رازداری‘ کو چیلنج کرنے پر خراج تحسین بھی پیش کیا گیا ہے۔

km / mm (AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں