جولین اسانج نے اپنی ساتھی اسٹیلا مورس سے جیل میں شادی کر لی
24 مارچ 2022
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے طویل عرصے کی اپنی ایک ساتھی اسٹیلا مورس سے لندن کی ایک اعلیٰ سکیورٹی والی جیل میں شادی کر لی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کے لیے صرف چار مہمانوں اور دو گواہوں کو اجازت دی گئی تھی۔
اشتہار
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے 23 مارچ بدھ کے روز جنوب مشرقی لندن میں واقع انتہائی سکیورٹی والی بیلمارش جیل میں ایک مختصر تقریب کے دوران اپنے دو بچوں کی ماں اسٹیلا مورس سے شادی کر لی۔
آزادی اظہار کے لیے سرگرم پچاس سالہ کارکن اسانج ایک دہائی قبل خفیہ دستاویزات کے ایک وسیع ذخیرے کی اشاعت سے متعلق الزامات کے تحت سن 2019 سے جیل میں قید ہیں۔ اسانج کے حامیوں کے مطابق ان کی شادی کی تقریب میں صرف چار مہمانوں اور دو گواہوں کو ہی شرکت کرنے کی اجازت دی گئی۔
اسانج کو شادی کی تصویر کی اجازت نہیں
اسٹیلا موریس نے اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے پیغامات کے ساتھ اپنے عروسی لباس اور خصوصی نقاب کے ساتھ جیل کے باہر تصاویر کھنچوائیں۔ جولین اسانج کے مداحوں میں سے ایک برطانوی ڈیزائنر ویوین ویسٹ ووڈ بھی ہیں اور انہوں نے ہی موریس کا لباس عروسی ڈیزائن کیا۔
ویسٹ ووڈ نے اسانج کے لیے بھی ایک ٹارٹن کلٹ (چار خانہ) ڈیزائن کیا۔ لیکن چونکہ جیل حکام نے ان کی تصویر لینے سے منع کر دیا تھا اس لیے اس کی تصویر نہیں لی جا سکی۔
وکی لیکس نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا، ''جولین اسانج کی آج کی کوئی تصویر دستیاب نہیں ہے کیونکہ جیل حکام نے دولہے کی تصاویر کو 'سکیورٹی کے لیے خطرہ' سمجھا ہے۔''
اسانج کی اہلیہ مورس نے بدھ کے روز معروف برطانوی اخبار گارڈین میں لکھا، ''ہمارے مہمانوں کی فہرست سے لے کر شادی کی تصویر
تک، اس نجی تقریب کے ہر مرحلے پر سختی سے نظر رکھی جا رہی ہے۔''
انہوں نے مزید لکھا، ''یہ جیل کی شادی نہیں ہے، بلکہ یہ جیل کی دیواروں اور سیاسی ظلم و ستم کے باوجود، من مانی حراست کے باوجود، جولین اور ہمارے خاندان کو جو ایذائیں پہنچائی گئی ہیں، اس کے باوجود، یہ محبت اور ثابت قدمی کا اعلان ہے۔''
حوالگی کے منڈلاتے خطرات
اس ماہ کے اوائل میں ایک اہم فیصلے کے تحت برطانیہ کی سپریم کورٹ میں جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ اور اب توقع ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ آنے والے ہفتوں میں ان کی حوالگی کے بارے میں فیصلہ کریں گی۔
اس کے باوجود اسانج کی دفاعی ٹیم کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ عدالتی ریویو کے تحت اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، یا پھر کیس کو انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں بھی لے جا سکتے ہیں۔
امریکہ کو حوالگی کی صورت میں اسانج کو افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں سے متعلق خفیہ معلومات جاری کرنے کے لیے جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی جاسوسی قوانین کی خلاف ورزی کا قصوروار پائے جانے کی صورت میں انہیں 175 برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے)
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔