آسٹریلیا کے سیاستدانوں کا جولین اسانج کی رہائی کا مطالبہ
15 فروری 2024
جولین اسانج کی ایک اہم سماعت سے قبل آسٹریلیا کی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں امریکہ اور برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جولین اسانج کو رہا کر دیں۔
اشتہار
آسٹریلیا کے 86 ارکان پارلیمان نے اس تحریک کے حق میں ووٹ کیا، جس میں جولین اسانج کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے، جبکہ 42 نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ اس میں کہا گیا کہ اسانج کو گھر آنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
وزیر اعظم انتھونی البنیز نے اس تحریک کی حمایت کی، جو سن 2022 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی جولین اسانج کیس کو ''نتائج'' تک پہنچنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ اکتوبر میں سرکاری دورے کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ بھی اس معاملے کو براہ راست اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے مختلف جماعتوں کے آسٹریلوی ارکان پارلیمان کے ایک وفد نے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا، تاکہ جولین اسانج کی آزادی کے لیے امریکی قانون سازوں کے ساتھ لابنگ کی جا سکے۔
جولین اسانج امریکہ کی حوالگی کے خلاف اپنی آخری اپیل کے لیے آئندہ ہفتے برطانیہ کی ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے ہیں اور آسٹریلوی پارلیمان کی یہ اپیل اس سے پہلے کی گئی ہے۔
آسٹریلیا کے اٹارنی جنرل مارک ڈریفس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو اپنے امریکی ہم منصب میرک گارلینڈ کے ساتھ گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ایک میٹنگ کے دوران اٹھایا تھا۔
مارک ڈریفس نے ایک بیان میں کہا، ''یہ ایک نجی بات چیت تھی، تاہم مسٹر اسانج کے بارے میں اس حکومت کا موقف بہت واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس معاملے کو ختم کیا جائے۔''
برسوں سے لندن کی جیل میں قید
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سن 2010 اور 2011 میں ہزاروں خفیہ دستاویزات شائع کرنے کے لیے مطلوب ہیں۔ ان سے متعلق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔
اشتہار
آسٹریلوی شہری جولین اسانج فی الوقت لندن کی بیلمارش جیل میں قید ہیں اور جاسوسی کے الزام میں امریکہ کو مطلوب ہیں، جہاں انہیں 175 برس قید کی سزا کا سامنا ہے۔
البتہ اسانج کی طویل عرصے سے یہ دلیل رہی ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔ ان کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ اگر انہیں امریکہ بھیجا گیا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ اپنی جان لے سکتے ہیں۔
سن 2021 میں برطانیہ کے ایک جج نے مسٹر اسانج کی دماغی صحت سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی حوالگی کو روک دیا تھا۔
لیکن بعد میں ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو اس بنیاد پر تبدیل کر دیا کہ امریکہ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسٹر اسانج کی حفاظت سے دیکھ بھال کی جائے گی۔ سن 2022 میں اس وقت کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے امریکی حوالگی کی درخواست کو منظور کر لیا، جس کی وجہ سے ان کی نئی قانونی اپیل شروع ہوئی۔
امریکہ کو حوالگی کی صورت میں اسانج کو افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں سے متعلق خفیہ معلومات جاری کرنے کے لیے جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی جاسوسی قوانین کی خلاف ورزی کا قصوروار پائے جانے کی صورت میں انہیں 175 برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
صحافیوں کے لیے برا وقت
تین مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس نے 2013ء کے دوران پریس فریڈم پر ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں آج کی صورتحال زیادہ خراب ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ترکی اور یوکرائن ’آزاد نہیں‘
متوازن رپورٹنگ، صحافیوں کا تحفظ اور میڈیا پر حکومتی اثرورسوخ کم یا نہ ہونا، غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس کے مطابق 2013ء میں دنیا کی صرف چودہ فیصد آبادی ایسے حالات میں سانس لینے کے قابل رہ سکی۔ 1996ء کے بعد یہ شرح اس وقت کم ترین ہے۔ ایسے ممالک جہاں پریس کی آزادی کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں، ان میں ترکی اور یوکرائن بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
وسطی ایشیا ایک مشکل خطہ
آزادی صحافت کے بارے میں فریڈم ہاؤس کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق ترکمانستان، ازبکستان اور بیلاروس میں صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ 197 ممالک میں کرائے گئے اس سروے کے مطابق پریس فریڈم کے حوالے سے بہترین ممالک ہالینڈ، ناروے اور سویڈن قرار پائے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صحافیوں پر حملے
گزشتہ برس ترکی میں صحافیوں پر متعدد حملے ہوئے۔ مثال کے طور پر (تصویر) گوکان بچیجے کو استبول میں واقع گیزی پارک میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق ترکی میں گزشتہ برس صرف دسمبر میں ہی چالیس صحافی گرفتار کیے گئے۔ ترکی میں آزادی صحافت کی صورتحال وقت کے ساتھ نازک ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
یوکرائن کی صورتحال
گزشتہ برس یوکرائن میں بھی آزادی صحافت کے لیے ناخوشگوار رہا، جہاں کییف کے میدان اسکوائر پر منعقد کی گئی حکومت مخالف ریلیوں کے دوران خاتون صحافی ٹاٹیانا چورنووَل کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد ہزاروں افراد نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا۔ چورنووَل نے یوکرائن کے معزول صدر وکٹور یانوکووچ کی پرتعیش طرز زندگی کو اجاگر کیا تھا۔
تصویر: Genya Savilov/AFP/Getty Images
’جھوٹ بولنا بند کرو‘
گزشتہ برس پریس فریڈم کے حوالے سے روس اور چین میں بھی صورتحال ابتر ہی رہی۔ ان ممالک میں حکومت نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے متعدد ایسے قوانین منظور کیے، جن سے بالخصوص انٹر نیٹ پر آزادی صحافت پر قدغنیں لگیں۔ روس میں بہت سے لوگ اس صورتحال پر نہ صرف ناراض ہیں بلکہ وہ احتجاج بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صحافیوں کی جاسوسی
امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں پریس فریڈم ہے تاہم وہاں حکومتی انفارمیشن پالیسی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ وہاں اکثر ہی قومی سلامتی کے نام پر سرکاری معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں اور صحافیوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذرائع بتائیں، جنہوں نے انہیں باخبر کیا ہے۔ امریکا میں حکام نے اے پی کے ایک صحافی کی ٹیلی فون کال ریکارڈ بھی کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مصر، مبارک کے دور کی جھلکیاں
مصر میں گزشتہ برس پریس فریڈم کی صورتحال کو خطرناک تصور کیا گیا ہے۔ وہاں محمد مرسی کی معزولی کے بعد صورتحاکل مزید خراب ہوئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مرسی خود بھی پریس فریڈم کے دشمن قرار دیے جاتے تھے۔ مصر میں 2013ء کی آخری ششماہی میں بیمشار صحافی گرفتار کیے گئے۔ فریڈم ہاؤس کے مطابق اس دوران فوجی کارروائی کے نتیجے میں پانچ صحافی ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: AFP/Getty Images
مالے میں خوش کن پیشرفت
جہاں کئی ممالک میں پریس فریڈم کے حوالے سے صورتحال بگڑی ہے، وہیں کچھ ممالک میں یہ صورتحال بہتر بھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر مالے میں صدارتی انتخابات کے انعقاد اور اسلامی باغیوں کو پسپا کرنے کے بعد سیاسی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ مالے میں 2012ء کی فوجی بغاوت کے بعد بند کر دیے گئے متعدد میڈیا ادارے اب دوبارہ کام کرنے لگ گئے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
کرغزستان اور نیپال میں بہتری
پریس فریڈم کے حوالے سے جن دیگر ممالک میں مثبت تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، ان میں کرغزستان بھی شامل ہے، جہاں گزشتہ برس صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی شرح کافی کم ہو گئی۔ اسی طرح نیپال میں بھی صحافت پر حکومتی کنٹرول ختم کر دیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود بھی ان دونوں ممالک میں صحافیوں کو دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔