رواں برس جون کے مہینے میں کئی یورپی ملکوں میں شدید گرمی پڑی تھی۔ ایک فرانسیسی شہر میں تو درجہٴ حرارت پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اشتہار
امریکا کے سمندروں اور بالائی ماحول کے قومی ادارے NOAA نے اپنی ایک رپورٹ میں سن 2019 کو پچھلے تقریباً ایک سو چالیس برسوں کا گرم ترین سال قرار دیا ہے۔ موسمی اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جون میں در جہٴ حرارت معمول کے درجہٴ حرات سے دو ڈگری سے زیادہ رہا تھا۔
جرمنی میں بھی ماہ جون کے دوران مغربی جرمن ریاست رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے ایک علاقے میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 38.9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جرمنی کے ہمسایہ ملکوں میں بھی شدید گرمی کی لہر نے لوگوں کو بے حال و بے چین کیے رکھا۔
ماہ جون کے دوران غیر معمولی زیادہ درجہ حرارت مشرقی یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ وسطی شمالی روس، شمال مشرقی کینیڈا اور جنوبی امریکا کے جنوبی ممالک میں بھی درجہٴ حرارت معمول سے زیادہ رہا تھا۔ امریکی ادارے NOAA کے مطابق یہ درجہ حرارت ان تمام علاقوں میں سن 1981 سے سن 2010 کے درمیانی عرصے کے اوسط درجہٴ حرارت سے بھی دو ڈگری زیادہ رہا۔
امریکی ادارے کے ماحولیاتی سائنسدانوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے اور بظاہر زمین کے بڑھتے ہوئے درجہٴ حرارت کو روکنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ زمین کے درجہٴ حرارت کے بڑھنے سے برفانی براعظموں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے یہں اور پگھلتی برف سے انتہائی نامحسوس انداز سے سمندری سطح بلند ہو رہی ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کی برکلے ارتھ آرگنائزیشن کے سینیئر سائنسدان ربرٹ رہوڈے کا کہنا ہے کہ رواں برس کا نصف مکمل ہو چکا ہے اور موسمی رجحان ظاہر کرتا ہے کہ جب سے موسمیاتی درجہٴ حرات پر نگاہ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، یہ شاید سب سے گرم سال ہو سکتا ہے۔ کئی اور ادرے بھی ایسا ہی خیال ظاہر کر چکے ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جس انداز میں زمین کے ماحولیاتی نظام کو عدم استحکام ملا ہے، یہ مستقبل میں انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے عالمی طاقتوں کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہ کیا گیا تو تیس برسوں بعد زمین کے معمول کے درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔
ع ح، ع ا، نیوز ایجنسیاں
ان قدرتی مناظر کو دیکھنے میں بھی کہیں دیر نہ ہو جائے
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑے سنگی مرجانی چٹانوں کے نظام سے لے کر دیو قامت گلیشیئرز جیسے مقامات کے خاتمے سے پہلے پہلے انہیں دیکھنے کے لیے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سیاح ان مقامات کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
عارضی خزانہ
سالانہ بیس لاکھ افراد گریٹ بیریئر ریف (سنگی مرجانی چٹانوں کا نظام) کو دیکھنے آسٹریلیا آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق تقریبا ستر فیصد سیاح یونیسکو کے اس عالمی ورثے کو اس وجہ سے دیکھنے آ رہے ہیں کیوں کہ یہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر لیا جائے تو نوے فیصد کورل ختم ہو جائیں گی۔ کورل کو چھونے یا گندگی سے سیاح اس عمل کو تیز بنا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Probst
انسان کی لائی ہوئی تباہی
اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار برفانی ریچھوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث بنے؟ سن دو ہزار دس کے ایک سروے کے مطابق چرچل اور کینیڈا میں برفانی ریچھ کی سفاری سالانہ 20 میگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث ہے۔ زیادہ تر سیاح جہازوں سے سفر کرتے ہیں۔ اٹھاسی فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث انسان ہے۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
براعظم انٹارکٹیکا دیکھنے کا شوق
برفانی ریچھوں کے ساتھ ساتھ گلیشئرز پگھلنے کی تصاویر کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی نمائندہ تصاویر سمجھا جاتا ہے۔ سیاح کروز شپ کے ذریعے سمندر میں تیرتے ہوئے ایسے عظیم الجثہ برفانے تودے کو دیکھنے کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں۔ سن 1990ء میں براعظم انٹارکٹیکا کی سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ سن 2018ء میں یہ تعداد 46 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
تصویر: S. Weniger/M. Marek
سیزن کے عروج میں
تیزی سے ختم ہوتی ہوئی قدرتی برف کو دیکھنے کے لیے لازمی نہیں آپ قطب شمالی یا قطب جنوبی جائیں۔ براعظم افریقہ میں کلیمنجارو کی برفانی پہاڑیوں کی سیاحت سے سالانہ چوالیس سے پچاس ملین ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں وہاں کی 85 فیصد برف ختم ہو گئی ہے۔ باقی ماندہ برف بھی رواں صدی کے وسط تک ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schnoz
بے تاج بادشاہ
جب سن 1910ء میں امریکا کے گلئیشیر نیشنل پارک کا افتتاح ہوا تھا تو اس کی ایک سو سے زائد چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا۔ اب ایسی دو درجن سے بھی کم چوٹیاں باقی بچی ہیں۔ یہ پارک اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تحقیقی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سالانہ تیس لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Imago Images/Aurora/J. Miller
ایک جنت کا نقصان
مالدیپ سیاحوں کی جنت ہے۔ اس کے بارہ ہزار کورل جزیرے ہیں، جہاں اڑھائی میٹر بلند شفاف پانی کے نیچے سے سفید ریت نظر آتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں اس ملک کے صدر نے ایک نیا ایئرپورٹ اور سیاحتی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ موجودہ سے سات گنا زیادہ سیاحوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ نئے جزیرے بنانے کے لیے مقامی کمیونیٹیز کو بھی دوسری جگہ آباد کیا جانا ہے۔ ابھی یہ منصوبہ پایا تکمیل نہیں پہنچا۔
تصویر: Colourbox
نمکیں دلدل
رفتہ رفتہ صرف جزیرے ہی زیر آب نہیں آ رہے بلکہ فلوریڈ کا دلدلی ایورگلیڈز نیشنل پارک بھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ایورگلیڈز کا تقریبا نصف حصہ خشک ہو چکا ہے اور اب زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔