جوہری تنازعہ۔ ایران کے خلاف قرارداد منظور
28 نومبر 2009اس سے ایران پر عالمی برادری کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے کہ وہ IAEA کو اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں کھل کر تمام حقائق سے آگاہ کرے۔ تہران حکومت نے اِس قرارداد کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔
آئی اے ای اےکے اِس حالیہ اقدام سے تہران حکومت کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عالمی برادری کی برداشت اب ختم ہو رہی ہے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد اب ایران کے جوہری پروگرام کا معاملہ ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجا جائے گا، جہاں ایران کے خلاف پابندیاں عائد کئے جانے کے امکانات ہیں۔
آئی اے ای اے کے سربراہ محمد البرادئی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ایران کے جوہری عزائم پر تشویش ہے اور یہ کہ ایران کے معاملے پر یہ تشویش گزشتہ چند برسوں سے پائی جا رہی تھی۔ اُن کے بقول عالمی ادارہ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام محض پر امن مقاصد کے لئے ہے۔ ان کے بقول حال ہی میں ایرانی حکام کی جانب سے قم شہرمیں جوہری پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف نے تہران حکومت پر عالمی برادری کے اعتماد میں مزید کمی کی ہے۔
ایران کے خلاف حالیہ قرارداد کی منظوری ویانا میں IAEA کے دوروزہ اجلاس کے بعد عمل میں آئی۔ مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران کے جوہری پروگرام کو شک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
اِس بار پہلی مرتبہ ایران کی طرفداری کرنے والے بڑے ممالک چین اور روس نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔ ان دو ممالک کی پالیسی میں تبدیلی ایران کی جانب سے رواں برس ستمبر میں قم شہر میں ملک کے دوسرے جوہری پلانٹ کی موجودگی تسلیم کرنے کے بعد آئی ہے۔
آئی اے ای اے کے پینتیس مملکتی بورڈ کے پچیس ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔ عالمی ادارے میں منظورشدہ اس قرارداد سے قبل ایران کو پیش کش کی جا چکی تھی کہ وہ یورینیم کو مزید افزودگی کے لئے فرانس اور روس بھیج سکتا ہے تاہم ایرانی حکام نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔
ماسکو حکومت نے امید ظاہر کی ہے کہ ایران اس قرارداد کی منظوری میں موجود اشارے کو سنجیدگی سے سمجھتے ہوئےعالمی ادارے سے تعاون میں اضافہ کرے گا۔ ایران کے سب سے بڑے حریف سمجھے جانے والے ملک، اسرائیل نے اِس قرارداد کو خوش آئند قراردیتے ہوئے ایران پر سخت پابندیاں لگائے جانے کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ اس قرارداد کے ذریعے ایران کو ممکنہ طورپر سخت ترین اشارہ دے دیا گیا ہے۔ ادھر امریکہ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اس کے خلاف عالمی برادری متحد ہے اور اب وہ اپنے خلاف کسی بھی اقدام کا ذمہ دار خود ہوگا۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا ہے کہ اب ایران کو شفاف انداز میں عالمی ادارے کو اپنے جوہری پروگرام سے متعلق معلومات فراہم کردینی چاہییں۔
ایران کی جانب سے البتہ دفاعی ردعمل کے بجائے جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ تہران حکومت نے کہا ہے کہ حالیہ قرارداد کی منظوری کے بعد اب آئی اے ای اے کے ساتھ محض قواعد کے مطابق تعاون کیا جائے گا، نہ اُس سے کم، نہ زیادہ۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : امجد علی