جوہری مذاکرات سے ایران کو منانے پر کم ہی اعتماد ہے، ایہود باراک
1 مئی 2012یروشلم میں غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں ایہود باراک نے کہا کہ ایران کے خلاف سخت بین الاقوامی پابندیوں نے تہران حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں ایسا نہیں لگتا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی قدم اٹھائے گا۔
’’ایران کے خلاف عالمی برادری کی پابندیاں ماضی کے مقابلے میں خاصی سخت ہیں اور انہی نے تہران حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئے۔ تاہم پی فائیو ( سلامتی کونسل کے پانچ مستقبل اراکین اور جرمنی) کے ساتھ ایران کے مذاکرات پر مجھے زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت میں منفی سوچ کا حامل دکھائی دے رہا ہوں، تاہم اسرائیل اس معاملے میں دھوکہ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
واضح رہے کہ تہران حکومت نے ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے سفارتکاروں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے، تاہم اسرائیل ان مذاکرات پر کئی مرتبہ عدم اعتماد کا اظہار کر چکا ہے۔
ایہود باراک نے کہا،’ایرن کی چالوں کو جانچنے کے لیے ماضی میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان مذاکرات کے حوالے سے میرے اندازے غلط ثابت ہوں، تاہم اسرائیل کے وزیر دفاع کے بقول عوام کی جانب سے مجھے دی گئی ذمہ داری یہ ہے کہ میں کسی بھی خطرے سے منہ نہ موڑوں۔‘
واضح رہے کہ تہران حکومت کے چیف جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی اور عالمی طاقتوں کے سفارتکاروں نے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے پہلے مرحلے کی بات چیت ترک شہر استنبول میں 14 اپریل کو کی تھی۔ اس سلسلے میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات 23 مئی کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ہوں گے۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ تہران حکومت ان مذاکرات کے ذریعے وقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاہم کہ زیادہ سے زیادہ یورینیم افزودہ کر سکے۔ اسرائیل اور مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی لیےکوشاں ہے تاہم تہران حکومت اپنے جوہری پروگرام کو پرامن قرار دیتی ہے۔
at/ai (Reuters, AFP, dpa)