1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری مذاکرات سے قبل ایران کی جنگی مشقیں

7 نومبر 2021

ایران کی سالانہ فوجی جنگی مشقوں کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ ان فوجی مشقوں میں ایرانی افواج کے سبھی عسکری دھڑے شریک ہیں۔ ان مشقوں کا علاقہ خلیج عمان کی اہم اسٹریٹیجک ساحلی پٹی ہے۔

Iranische Armee
تصویر: Iranian Army/picture alliance/AP

ایرانی جنگی مشقوں کو ''ذوالفقار چودہ سو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ان مشقوں میں ایرانی افواج کے بری، ہوائی اور بحری دستے شریک ہیں۔ ایرانی ٹیلی وژن کے مطابق خصوصی تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس کمانڈوز بھی جنگی مشقوں میں شامل ہیں۔

ایرانی فوج نے خلیج عُمان کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ایک ملین مربع کلومیٹر ( تین لاکھ چھیاسی ہزار ایک سو میل) پر پھیلے وسیع علاقے میں اپنی سالانہ جنگی مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ مشقوں کا علاقہ مشرق میں آبنائے ہُرمز کے نزدیک جا پہنچتا ہے۔ ان مشقوں میں فوج کے مشینی یا میکانائزڈ دستے بھی شریک ہیں۔

ایرانی بحری مشقیں: اپنی ہی کشتی میزائل کی زد میں، 19 ہلاکتیں

ایرانی میڈیا کے مطابق ذوالفقار فورٹین ہنڈرڈ نامی مشقیں اصل میں اس کا تعین کریں گی کہ ملکی فوج کسی بھی غیر ملکی جارحیت، فوج کشی اور دھمکیوں کا سامنا کرنے کے لیے کس حد تک تیار اور چوکس ہے؟

ایرانی جنگی مشقوں کے دوران ایک فرضی جنگی بحری جہاز کو گھیرے میں لیتی ایرانی تیز رفتار جنگی کشتیتصویر: picture-alliance/AP Photo/Sepahnews

ان مشقوں میں ایرانی فضائی فوج کے جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرز، ڈرونز اور ٹرانسپورٹ طیارے بھی حصہ لے رہے ہیں۔ خلیج عُمان میں ایرانی بحری فوج کے دستے حصہ لینے کے لیے موجود ہیں۔ ان میں تیز رفتار مانیٹرنگ کشتیاں، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں شامل ہیں۔

ابھی تک ایرانی حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ فوجی مشقوں کا اختتام کب ہو گا؟

ایرانی جوہری مذاکرات

جنگی مشقوں کا علاقہ اسٹریٹیجک نوعیت کی آبنائے ہُرمز سے صرف ایک کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اسی آبنائے ہُرمز کے راستے دنیا کی بیس فیصد تیل کی تجارت ہوتی ہے۔ تیل کے بحری جہاز آبنائے ہُرمز سے گزر کر خلیج عُمان اور بحر ہند میں اپنا آگے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔

ایران، چین اور روس کی بحری فوجی مشقوں کا آغاز

ان مشقوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری بات چیت دوبارہ شروع ہونے میں صرف تین ہفتے رہ گئے ہیں۔ یہ بات چیت انتیس نومبر کو ویانا میں شروع ہو گی۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2015 کی جوہری ڈیل سے سن 2018 میں یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تہران حکومت پر انتہائی سخت اقتصادی پابندیوں کا بھی نفاذ کر دیا تھا۔

جنگی مشقوں کے دوران ایرانی بری فوج کے پیرا ٹروپرز زمین پر اترتے ہوئےتصویر: Reuters/WANA

ایرانی جوہری پروگرام

ایران جوہری ڈیل کے منافی عمل کرتے ہوئے اپنے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو بھی بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں ایران نے واضح کیا تھا کہ اِس وقت اُس کے پاس دو سو دس کلوگرام (چار سو تریسٹھ پاؤنڈ) ایسا یورینیم ہے، جو بیس فیصد سے زائد افزودہ ہے۔

ایرانی پاسدارنِ انقلاب کیا ہے؟

سن 2015 کی ڈیل کے تحت ایران کو 3.67 فیصد سے بلند سطح کی یورینیم افزودگی کی ممانعت تھی۔ ایران نے یورینیم افزودگی کی شرح بڑھانے کا عمل ٹرمپ دور کی اقتصادی پابندیوں کے جواب میں شروع کیا تھا۔

اس جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران اب بھی اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری ہتھیار سازی کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ ملکی جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے جاری رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب مغربی ممالک اور اسرائیل کے خدشات ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔

ع ح/ ا ا (اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں