جوہری معاہدہ : ایران اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرے، نیتن یاہو
3 اپریل 2015
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعہ تین اپریل کو مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی قسم کے بھی جوہری معاہدے کو حتمی شکل دینے سے قبل یہ لازمی بنایا جائے کہ تہران حکومت اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرے۔ بینجمن نیتن یاہو نے چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جوہری معاہدے تک پہنچنے والے فریم ورک پر متفق ہونے کو ایک ناقص سمجھوتے سے تعبیر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بات صرف ایک برے معاہدے اور جنگ کی نہیں ہے بلکہ ایک تیسرا امکان بھی موجود ہے: ’’وہ ہے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنا، ایران پر اس وقت تک دباؤ ڈالنا جب تک ایک معقول معاہدے طے نہ پا جائے‘‘۔ بینجمن نیتن یاہو کے بقول، ’’اسرائیل مطالبہ کرتا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی بھی حتمی معاہدے میں ایران کی طرف سے اسرائیل کا ریاستی بقاء کا حق واضح طور پر تسلیم کرایا جانا چاہیے۔‘‘
بینجمن نیتن یاہو کا یہ بیان سلامتی کی اسرائیلی کابینہ کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ کابینہ جوہری معاہدے کی موجودہ شکل کے خلاف ہے‘‘۔ ان کے بقول اس معاہدے کے بعد ایران پر سے پابندیاں اٹھ جائیں گی اور تہران حکومت خطے میں اور خطے سے باہر اپنی جارحیت اور دہشت گردی میں اضافہ کرے گی۔
امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ شام سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ایران کے ساتھ ہونے والے فریم ورک پر اس اتفاق کو ’’اچھی ڈیل‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس سے ایران کے جوہری عزائم سے متعلق خدشات دور کرنے میں مدد ملے گی۔ وائٹ ہاؤس میں انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ایران کے ساتھ ’’تاریخی مفاہمت‘‘ ہوئی ہے۔
ادھر ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران عالمی طاقتوں سے ہر طرح کا تعاون کرنے پر تیار ہے اور اگر ایک فریق نے اپنے وعدوں کا پاس رکھا تو ایران کی جانب سے بھی مثبت جواب دیا جائے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس ڈیل کو سبھی کے لیے سود مند قرار دیا ہے۔ ایران، جرمنی اور سلامتی کونسل کی پانچ مستقل رکن ریاستیں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں گزشتہ کئی روز سے یہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھیں۔ جون میں متوقع حتمی معاہدے سے قبل ایک فریم ورک کی تیاری کے لیے ڈیڈ لائن 31 مارچ رکھی گئی تھی تاہم عدم اتفاق کے باعث مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا۔