جوہری معاہدہ: جرمن چانسلر اور ایرانی صدر کی بات چیت
18 فروری 2021
جرمنی نے عالمی جوہری معاہدے کے تئیں ایران کی عدم تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے بعد اس معاہدے کو بچانے کی کوششیں مزید تیز ہو گئی ہیں۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بدھ سترہ فروری کو ایرانی صدر حسن روحانی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران سن 2015 کے جوہری معاہدے پر ایران کی عدم تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا۔
جرمن چانسلر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق میرکل نے بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) پر دستخط کرنے والے ممالک اس معاہدے کو بچانے میں دلچسپی رکھتے ہے۔
سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران عالمی معائنہ کاروں کو تفتیش کے لیے اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی دے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد عالمی پابندیاں مرحلہ وار ہٹا لی جائیں گی۔
جرمن چانسلر کے ترجمان اسٹیفان زائبرٹ کا کہنا تھا کہ فون پر بات چیت کے دوران میرکل نے اس بات پر، ''تشویش کا اظہار کیا کہ جوہری معاہدے کے تحت ایران اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں نا کام رہا ہے۔''
جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ''یہ مثبت اشاروں کا وقت ہے جس سے اعتماد پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ تنازعے کے سفارتکاری کے ذریعے حل ہونے کے مواقع میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔''
سفارتی کی کوششیں
انگیلا میرکل نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ایسے موقع پر بات چیت کی ہے جب امریکا اور یورپ کے تین بڑے ملک یہ صلاح و مشورے کر رہے ہیں کہ اس جوہری معاہدے کو کیسے بچایا جائے۔
جمعرات کے روز ہی فرانس کے وزیر خارجہ زاں ایف لو دریان اس موضوع پر بات چیت کے لیے اپنے جرمن اور برطانوی ہم منصب سے پیرس میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکین بھی اس میٹنگ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک ہوں گے۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ چاہتے ہیں کہ اس جوہری معاہدے کو بچا لیا جائے اور امریکا ایک بار پھر سے اس پر غور کرے جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں دستربردار ہو گئے تھے۔ صدر بائیڈن نے اس میں دوبارہ شامل ہونے کا عندیہ تو دیا تھا تاہم ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ ایران کو چاہیے کہ پہلے وہ اس معاہدے پر پوری طرح سے عمل کرے۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
خامنہ ای کا مطالبہ
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی فون پر بات چیت کی خبر آتے ہی ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ اگر امریکا حقیقت میں اس معاہدے پر نظر ثانی کرنا چاہتا ہے تو اسے الفاظ کا سہارا لینے کے بجائے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بدھ کے روز ٹیلی ویژن پر اپنے ایک خطاب کے دوران انہوں نے کہا، ''ہم نے بہت سے اچھے الفاظ اور وعدے سنے ہیں، تاہم انہیں عملی جامہ پہنانے کے بجائے حقیقتاً اس کے بر عکس اقدامات کیے گئے ہیں۔''
خامنہ ای نے مطالبہ کیا کہ اگر امریکا یہ چاہتا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر عمل کرے تو پہلے اسے پابندیاں اٹھانی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا، ''محض الفاظ اور وعدے کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے۔ اس بار ہم دوسری جانب سے بھی عملی اقدامات چاہتے ہیں اور پھر ہم بھی اقدام کریں گے۔''
ایران کا کہنا ہے اگر امریکا نے آئندہ ہفتے تک ان پابندیوں کو ختم نہیں کیا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر عائد کی تھیں تو وہ جوہری معائنہ کاروں کی رسائی بھی روک سکتا ہے۔
اشتہار
آئی اے ای اے کا مجوزہ دورہ ایران
عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ باہمی متفقہ حل تلاش کرنے کی امیدوں کے ساتھ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی سینیئر ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے آئندہ سنیچر کے روز تہران کا دورہ کرنے والے ہیں۔
جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی
00:53
ادارے کا کہنا ہے کہ گراسی اپنے دورے کے دوران ایرانی حکام سے اس بات پر ایک معاہدہ کرنا چاہتے کہ عالمی جوہری معائنہ کاروں کی ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی برقرار رہے تاکہ وہ اپنی تفتیشی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
عالمی تشویش
مبصرین کا کہنا ہے اس جوہری معاہدے کو بچانے کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں اور عالمی برادری کو اگر ایسا کرنا ہے تو اسے اس پر تیزی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ایران بہت تیزی سے اس شرح تک یورینیم کی افزودگی کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے جوہری ہتھیار تیار کیے جاسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایران جوہری معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے اپنی تنصیبات میں یورینیم کی 20 فیصد تک افزودگی شروع کر دی ہے۔ جبکہ جوہری معاہدے کی رو سے ایران کو یورینیم کی صرف 3.67 فیصدکی شرح تک افزودگی کی اجازت ہے۔
مغربی ممالک کو جہاں اس بات پر تشویش ہے وہیں اسی برس جون میں ایران میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسی صورت میں جوہری معاہدے کو بچانا مزید پیچیدہ عمل ہوسکتا ہے۔
ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
متاثرکُن اور شاندارایرانی ثقافتی مقامات
بہت سے ماہرین تاریخ و آثار قدیمہ ایران کو انسانی تہذیب کا گہوارہ قرار دیتے ہیں۔ ایران کے تاریخی ثقافتی مراکز اس ملک اور خطے کے شاندار ماضی کا احوال بیان کرتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تخت جمشید
ہخامنشی شاہی خاندان نے تخت جمشید یا پرسیپولس نامی شہر کی تعمیر 520 قبل از مسیح شروع کی تھی۔ یہ قدیم پارس تہذیب کا مرکز تھا۔ سکندر اعظم یونانی نے ہخامنشی خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ اپنی عسکری مہم جوئی کے دوران کیا۔ اس کے کھنڈرات میں محلات، مقبروں، عمارتوں کے ستون اور قدیم نوادرات قابل تعریف و توصیف ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
چغا زنبیل
سلطنت ایلام کے بادشاہ انتاشا ناپیرشا نے چغا زنبیل نامی شہر تیرہویں صدی قبل از مسیح میں تعیمر کیا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی ریاستوں کے ساتھ جنگ و جدال ہی اس کی تعمیر کی وجہ تھی۔ اس قدیمی شہر کے وسط میں ایران میں واقع قدیم ترین مذہبی عبادت گاہ ہے۔ یہ تاریخ مقام ایرانی صوبے خوزستان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. D. Kley
پاسارگاد
یہ شیراز شہر سے نوے کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ ہخامنشی بادشاہ سائرس اعظم کے دور میں سلطنت کا صدرمقام تھا۔ چھٹی صدی عیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس قدیمی شہر میں زیرزمین آب پاشی کا نظام قابل تعریف ہے۔ تصویر میں سائرس سوم کا مقبرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBroker/S. Auth
سینٹ تادؤس کی خانقاہ
یہ کلیساٴ سیاہ کے طور پر بھی مشہور ہے اور یہ آرمینیائی خانقاہ ہے۔ یہ ایرانی صوبے مغربی آذربائیجان میں واقع ہے۔ آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کا خیال ہے کہ یہ یہودہ تادؤس کے نام منصوب کلیسا پہلی بار اڑسٹھ عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔ ایک زلزلے میں تباہی کے بعد اس کو چودہویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرمینیائی اور ایرانی مسیحی کمیونٹی کے علاوہ کئی اور ممالک کے مسیحی زائرین یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تبریز کا بازار
ایرانی شہر تبریز مشہور سلک روڈ پر واقع ہے۔ یہ برسوں سے کارباری اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تاریخی بازار کے ساتھ ساتھ مذہبی اور تعلیمی مراکز کا شہر بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے طویل احاطہ بازار تیرہویں صدی عیسوی کی نشانی ہے۔ تبریز شہر صفوی خاندان کی سلطنت کا دارالحکومت اور اسی دور میں شیعہ اسلام کو فروغ ملا اور سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔
تصویر: picture-alliance/Dumont/T. Schulze
شیخ صفی الدین کا مزار
صفوی دور کے شیخ صفی الدین شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ اُن کا مزار یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے۔اردبیل میں واقع مزار پہلے شیخ صفی الدین کا تربیتی و تعلیمی مرکز تھا۔ اربیل کا شہر صفوی دور حکومت میں ایک متبرک شہر خیال کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/P. Langer
یزد کا قدیمی شہر
جدید ایران کے تقریباً وسط میں یزد کا شہر واقع ہے۔ یہ صحرا میں ایک نخلستان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اپنے دور میں یہ زرتشتی مذہب کا مرکز و محور بنا۔ عظیم الشان عبادت خانوں کی وجہ سے بھی یزد شہر مشہور ہے۔ اس شہر کے اندر آبی گزرگاہوں کا نظام جسے قناط ٹکنالوجی کہا جاتا ہےقابل دید تھا۔یہاںونڈ ٹاورز بھی قائم کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/R. Zimmermann
یزد کا آتش کدہ
زرتشتی مذہب میں آگ انتہائی مقدس و متبرک ہے اور تخلیق کائنات کی اساس خیال کی جاتی ہے۔ یزد کا آتشکدہ مرکزی عبادت خانہ تھا۔ یہ عبادت کے ساتھ ساتھ زائرین اور عقیدت مندوں کی ملاقاتوں اور تبادلہٴ خیال کا ایک مقام بھی تھا۔ زرتشتی دور حکومت دوسری سے ساتویں صدی عیسوی میں اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
باغ ارم
ارم گارڈن تاریخی فارسی باغات کی ایک متاثر کن مثال ہے جو قرون وسطی میں پہلی بار تعمیر ہوا تھا۔ اونچی دیواروں سے گھرا ہوا،ان میں عام طور پر واٹر چینل اور ایک سمر محل شامل ہوتا ہے۔ فارسی ثقافت کا ایک اہم حصہ،باغات نے زمینی جنت کے تصور کو مجسم بنایا۔ یہ لفظ در حقیقت باغیانے کے لئے قدیم فارسی اصطلاح سے ماخوذ ہے ، "پیرادیدا"۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
اصفہان کا سی وسہ پل
دریائے ژائندہ پر بنائے گئے گیارہ پلوں میں ایک سی وسہ پل ہے۔ یہ دو منزلہ پل صفوی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا سن تعمیر سولہویں صدی ہے۔ اس میں کئی چائے خانے بہت مشہور ہیں۔ اس مقام پر لوگ بڑے شوق و ذوق سے طعام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
تصویر: Mohammad Reza Domiri Ganji
تہران کا گلستان محل
قاجار خاندان کے دور کی یہ نشانی ایرانی دارالحکومت تہران میں موجود ہے۔ اس کے بعض حصے سن 1925 اور 1945 کے درمیان مسمار کر دیے گئے تھے۔ ان مسمار شدہ جگہوں پر نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ آج کل گلستان محل میں قدیمی زیورات، ہتھیاروں اور ظروف کا میوزیم قائم ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/S. Auth
تہران کا مینار آزادی
تہران میں تعمیر کیا گیا فریڈم ٹاور پینتالیس میٹر بلند ہے۔ یہ جدید دور کا ایک شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل یہ یادگارِ شاہ کے نام سے موسوم تھا۔ اسے بادشاہ رضا شاہ نے ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار برس مکمل ہونے کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ اس کا طرز تعمیر ساسانی دور سے ملتا ہے۔