جوہری معاہدہ، یورپی ممالک وعدے نبھانے میں ناکام: جواد ظریف
جاوید اختر، نئی دہلی
15 جنوری 2020
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک جوہری معاہدے سے متعلق ایران کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اسٹریٹیجک اور دیگر عالمی امور پر بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے منعقد سالانہ کانفرنس 'رائے سینا ڈائیلاگ‘ سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کے بعد یورپ اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہ سکا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دیانت داری کو ثابت کر چکا ہے لہٰذا اب اسے کچھ اور ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔
جواد ظریف کا یہ بیان جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے اس الزام کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ان یورپی ممالک نے ایران پر جوہری معاہدے کے شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔ اور اس خلاف ورزی کے نتیجے میں ایران پر اقوام متحدہ کی طرف سے دوبارہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان تینوں یورپی ملکوں کی طرف سے بھیجے گئے خط کا ایران جواب دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جوہری معاہدے کا مستقبل ابھی 'فوت‘ نہیں ہوا ہے لیکن یہ سب کچھ یورپ پر منحصر ہے۔ جواد ظریف نے کہا، ''اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف جوہری معاہدے کا ایک رکن ہے بلکہ ا س نے اعلان کردیا ہے کہ جب یورپ اپنے وعدوں پر عمل کرے گا تو ایران بھی ایسا ہی کرے گا۔"
انہوں نے کہا کہ ایران نے جوہری معاہدے کے بارے میں سن 2018 میں ایک خط لکھا تھا لیکن یورپ نے ایران کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا اور چونکہ غیر ملکی کمپنیاں ایران چھوڑکر چلی گئیں اس طرح یورپ نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ ایسا کر کے انہوں نے امریکا کو من مانی کی اجازت دے دی۔
اس دوران ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی آج تہران میں اپنی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہوں۔ انہوں نے یورپی ملکوں کی جانب سے ایران پر وعدہ خلافی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کے حوالے سے یورپی ملکوں کا دعوی بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا،”تینوں یورپی ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سازشوں کے خلاف کچھ نہیں کیا ہے اور تمام 28 یورپی ممالک ہمیں بتائیں کہ اب تک جوہری معاہدے کے حوالے سے کیا اقدام اٹھایا ہے؟ ان ممالک نے اس معاہدے کے حوالے کچھ کام نہیں کیا ہے۔"
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
10 تصاویر1 | 10
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد سے مغربی ایشیا میں پیدا کشیدگی کو کم کرنے میں بھارت کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا ” خطے میں صورت حال بہت، بہت خطرناک ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اوروہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔"
خیال رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد بھارت نے کافی محتاط ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ چونکہ بھارت کے ایران اور امریکا دونوں سے ہی قریبی تعلقات ہیں اور ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہیں اس لیے بھارت توازن بنائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
جواد ظریف نے وزیر اعظم نریندر مودی اور اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے بھی ملاقات کی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ان رہنماؤں نے مغربی ایشیا اور مشرق وسطی میں موجود صورت حال کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان اور افغانستان سے ایران کیا توقع کر رہا ہے؟