'جوہری معاہدے پر ایران سے ملاقات کے لیے تیار ہیں': امریکا
19 فروری 2021
امریکا کا کہنا ہے کہ 2015 کے جس جوہری معاہدے سے ٹرمپ نے امریکا کو الگ کر لیا تھا، اس میں وہ دوبارہ شامل ہونے پر غور کرے گا۔
اشتہار
امریکا نے جمعرات 18 فروری کو کہا کہ وہ سن 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے پر گفت و شنید کے لیے ایران سے ملاقات کرنے کو تیار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں اس معاہدے سے امریکا کو الگ کرتے ہوئے ایران پر یکطرفہ طور پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تاہم صدر جو بائیڈن کا موقف ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی اور اس پر کنٹرول کے لیے یہ معاہدہ موثر ہے۔ یہ جوہری معاہدہ مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ہے اور اس پر دستخط کرنے والے ممالک اس معاہدے کو بچانے میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا، ''امریکا ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے جرمنی سمیت اقوام متحدہ کے پانچوں مستقل اراکین اور ایران کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے لیے یورپی یونین کے اعلی نمائندوں کے دعوت نامے کو تسلیم کریگا۔''
صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کرے گا۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Macdougall
9 تصاویر1 | 9
معاہدہ ٹوٹ چکا ہے تاہم درست بھی ہو سکتا ہے
ابھی یہ واضح نہیں کہ اس بارے میں بات چیت کے لیے ایران امریکا سے ملاقات کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایران نے امریکا کے اس معاہدے سے الگ ہونے کے بعد 2019 میں اس معاہدے پر عمل کرنا بند کر دیا تھا۔ اس نے واضح کر دیا ہے کہ سن 2015 کے معاہدے کے تحت یورینیم افزودہ کرنے کی جو حد مقرر کی گئی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ 20 فیصد تک یورینیم افزودہ کر سکتا ہے۔
اشتہار
یورینیم کی اعلی درجے کی سطح تک افزودگی جوہری ہتھیاروں کے بنانے کا ایک ممکنہ طریقہ کار ہے تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کے افزودگی کا پروگرام صرف توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔
جمعرات 18 فروری کو ہی جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزراء خارجہ نے اس سلسلے میں پیرس میں ملاقات کی تھی جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکین بھی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شریک ہوئے۔
اس میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا، ''اگر ایران مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے تو امریکا بھی اس پر عمل کرے گا اور پھر آخر میں وہ ایران کے ساتھ اس بارے میں بات چیت کے لیے بھی تیار ہے۔''
یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں
00:37
لیکن ایران نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ چونکہ امریکا اس معاہدے سے الگ ہوا تھا اس لیے پہل اسے ہی کرنی چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''پر شکوہ لفاظی اور ایران پر تمام تر ذمہ ادری عائد کرنے کے بجائے، یورپی یونین، اور تینوں یورپی ملکوں کو خود اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور ایران کے خلاف ٹرمپ کی معاشی دہشت گردی کی وراثت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔'' انہوں نے مزید کہا، ''ہم اقدامات کے بدلے عملی اقدامات کی پیروی کریں گے۔''
عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی سینیئر ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے آئندہ سنیچر کے روز تہران کا دورہ کرنے والے ہیں۔ گراسی اپنے دورے کے دوران ایرانی حکام سے اس بات پر ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں کہ عالمی جوہری معائنہ کاروں کی ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی برقرار رہے تاکہ وہ اپنی تفتیشی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے آئندہ اتوار تک ان پابندیوں کو ختم نہیں کیا جو اس نے 2018 میں عائد کی تھیں تو ایران عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کے حکام پر پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان