جمعے کو روس کی جانب سے یوکرین میں قائم یورپ کے سب سے بڑی جوہری بجلی گھر پر شیلنگ کی گئی، جس سے چرنوبل جوہری حادثے جیسے واقعے کے خدشات پیدا ہو گئے۔ مگر یہ خدشات کتنے حقیقی تھے؟
اشتہار
یوکرین سن 1986 میں چرنوبل جوہری سانحے کا سامنا کر چکا ہے۔ چرنوبل میلٹ ڈاؤن کی وجہ سے یورپ بھر میں تابکاری پھیلی تھی اور سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ جمعے کے روز روس کی جانب سے یوکرین میں قائم یورپ کے سب سے بڑے جوہری بجلی گھر پر قبضے کے لیے شدید بمباری کی گئی، جس کے بعد یہ خدشات پیدا ہو گئے کہ وسطی یورپ پھر سے ایک جوہری بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ خدشات تاہم اس وقت ختم ہوئے جب یوکرینی حکام نے اعلان کیا کہ اس پلانٹ میں لگنے والی آگ بجھا لی گئی ہے اور جوہری پلانٹ کی عمارت کو نقصان ضرور پہنچا ہے، مگر حساس یونٹ محفوظ رہا ہے۔
مگر یہ پلانٹ گو کہ چرنوبل سے بالکل مختلف ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس میں آگ سے تحفظ کا ایک نظام موجود ہے، تاہم جوہری تنصیبات کے سلامتی کے ماہرین اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایسی تنصیبات کے قریب لڑائی سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انتہائی نوعیت کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
یوکرین کے جوہری ریگولیٹر حکام کے مطابق اگر لڑائی کی وجہ سے پلانٹ کے لیے بجلی کی ترسیل کو نقصان پہنچتا ہے، تو اس تنصیب کے کولنگ سسٹم کو زندہ رکھنے کے لیے کم قابل اعتبار ڈیزل جنریٹر کے ذریعے بجلی فراہم کرنا پڑے گی، تاہم یہ نظام ناکارہ ہونے کی صورت میں جاپان کے فوکوشیما پلانٹ جیسا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔
سن 2011 میں جاپان میں سونامی نے جوہری پلانٹ کے کولنگ نظام کو تباہ کیا تھا، جس کے بعد یہاں واقع تین جوہری ری ایکٹر میلٹ ڈؤن کا شکار ہو گئے تھے اور بھاری مقدار میں تابکاری کا اخراج ہوا تھا۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اسی تناظر میں کہا کہ اس کے اثرات وسیع اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ نصف شب کو اپنے ایک جذباتی خطاب میں صدر زیلنسکی نے کہا، "اگر یہاں دھماکا ہوتا ہے، تو یہ ہر ایک کے خاتمے کے برابر ہو گا۔ یہ یورپ کے خاتمے کے برابر ہو گا۔ یہ یورپ سے جانے کا لمحہ ہو گا۔"
انہوں نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ روس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ایسے حساس مقامات کے نزدیک جنگ سے گریز کرے، "یورپ کی جانب سے فقط فوری اقدامات روسی دستوں کو روک سکتے ہیں۔ انہیں جوہری بجلی گھر کو تباہ کرنے اور یورپ کو برباد کرنے کی اجازت مت دیں۔"
چرنوبل جوہری سانحے کے 33 برس
چرنوبل جوہری حادثے میں بچ جانے والے 33 برس سے اس آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ سوویت دور میں پیش آنے والے اس سانحے کے اثرات آج تک اس علاقے کو ایک بھیانک رنگ دیے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
مرنے والوں کی یاد
اس وقت یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا۔ اس جوہری پلانٹ میں دھماکے کے فوراﹰ بعد 30 افراد تاب کاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے، جب کہ بعد میں بھی کئی افراد تاب کاری کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گئے۔ 90 ہزار سے زائد مزدوروں نے اس آفت زدہ پلانٹ کے گرد چھ ماہ بعد ایک مضبوط دیوار قائم کی۔
تصویر: DW/F. Warwick
بچ جانے والے خوش قسمت
سیرگئی نوویکوف بچ جانے والے خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1986ء میں اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس انتہائی تاب کاری کے مقام پر کام کی وجہ سے انہوں نے قرب المرگ کیفیت کا سامنا کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں جان کی بازی ہار بیٹھیں گے، مگر ڈاکٹروں کے اندازے غلط نکلے۔
تصویر: DW/F. Warwick
دن شمار کرتے لوگ
نوویکوف کی اہلیہ رائسہ نے اس وقت کلینڈر پر وہ دن نشان زدہ کرنا شروع کر دیے تھے، جب ان کے شوہر چرنوبل سانحے کے بعد انتہائی تاب کاری والے علاقے میں کام کرتے تھے۔ وہ پیلے قلم اور نیلے قلم سے اس کیلنڈر پر دن شمار کرتی رہیں۔ سول اور فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ سے آٹھ لاکھ تھی، جنہوں نے اس سانحے کے بعد کلین اپ یا صفائی آپریشن میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘ کی علامت یہ آئیکون ہے۔ اس میں ایک طرف یسوع مسیح جنت میں دکھائی دیے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سانحے کے متاثرین اور صفائی کے کام میں مصروف اہلکار ہیں، جنہیں وہ محبت نذرانہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مقامی آبادی کو دیگر مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
تنہا چھوڑ دیے گئے ملازمین
اس سانحے کے بعد صفائی کے کام میں حصہ لینے اور تاب کاری کے سامنے ڈٹے رہنے والے افراد کو بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہ افراد برسوں اپنے لیے مراعات اور پینشن کی کوششیں کرتے رہے۔ نیل مارداگالیموف بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جن کے مطابق انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، مگر حکومت کی جانب سے انہیں بعد میں کچھ بھی نہ ملا۔
تصویر: DW/F. Warwick
کھلے آسمان تلے
کوپاچی کے علاقے میں ایک گڑیا زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ گاؤں اس واقعے کے بعد خالی کرا دیا گیا تھا اور اب تک یہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب بھی یہاں تاب کاری کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی کے جوہری حملے سے بیس گنا زیادہ ہے۔
تصویر: DW/F. Warwick
واپس لوٹنے والے
زالیسیا خالی کرائے جانے والا سب سے بڑا گاؤں تھا۔ یہاں سے 35 سو افراد کو سن 1986اور 1987 میں مختلف شہری مقامات پر منتقل کیا گیا، تاہم ان فراد کو شہروں میں رہنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور قریب ایک ہزار افراد بعد میں رفتہ رفتہ اپنے گاؤں واپس لوٹ آئے۔ انہیں میں ایک خاتون روزیلینا دسمبر میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں فوت ہو گئیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
شہرِ خموشاں
اس جوہری تنصیب سے تین کلومیٹر دور واقع شہر پریپیات سوویت اشرافیہ کا مسکن تھا، جہاں زیادہ تر افراد ماسکو، کییف اور دیگر مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند تھا، مگر چرنوبل حادثے نے یہ شہر ایک کھنڈر بنا دیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
فطرت کی واپسی
کھیلوں کا یہ مرکز پریپیات کے ان مقامات میں سے ایک ہے، جہاں معیار زندگی کی بلندی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوویت دور کے اہم ایتھلیٹس اس شہر میں آیا کرتے تھے۔ اب یہاں پودوں میں سبز پتے رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
نمبر تین اسکول
اس شہر کی ایک تہائی آبادی 18 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل تھی، جو قریب 17 ہزار بنتی تھی۔ اس شہر میں 15 پرائمری اور پانچ سیکنڈری تھے، جب کہ ایک ٹیکنیکل کالج بھی تھا۔
تصویر: DW/F. Warwick
سوویت ماسک
سوویت دور میں اسکولوں میں شہری دفاع کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی، جن میں گیس حملے کی صورت میں ماسک کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسکول نمبر تین میں یہ گیس ماسک بچوں کو اسی تربیت کے لیے دیے گئے تھے، جب اب وہاں ایک ڈھیر کی صورت میں موجود ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
ایک سوویت یادگار
لگتا ہی نہیں کہ پریپیات یوکرائن کا علاقہ ہے۔ ایک مقامی گائیڈ کے مطابق، ’’یہ شہر ایک سوویت یادگار ہے اور بتاتا ہے کہ سوویت دور میں زندگی کیسی ہوا کرتی تھی۔‘‘
تصویر: DW/F. Warwick
12 تصاویر1 | 12
ہوا کیا؟
اسٹریٹیجک بندرگاہی شہر خیرسن پر قبضے کے بعد روسی فورسز نے اس جوہری بجلی گھر کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی اور اس کے قریب واقعے شہر انیرہودر پر بمباری شروع کی تھی۔ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ اس جوہری پلانٹ پر بمباری کیوں کی گئی تاہم اینرہودر شہر کے میئر دیمیترو اورلوف نے گزشتہ روز کہا تھا کہ روسی فوجی دستے جوہری تنصیب کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وہاں ہونے والے فائرنگ اور دھماکے شہر میں بھی سنے جا رہے ہیں۔
جمعے کو یوکرینی حکام نے بتایا کہ روس نے اس جوہری بجلی گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس پلانٹ کے ترجمان اندری تُس نے یوکرینی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روسی فوج کی جانب سے داغے گئے شیل سیدھے اس تنصیب میں گرے جس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے بتایا کہ روسی فوج کی جانب سے آگ بجھانے پر مامور عملے پر بھی فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے ابتدا میں آگ پر قابو نہ پایا جا سکا۔
اشتہار
آئی اے ای اے کی جانب سے اعلان
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے جمعے کے روز بتایا کہ اس پلانٹ کے اہم حصے روسی حملے میں محفوظ رہے ہیں۔ تاہم حالات کی سنگینی کے پیش نظر عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائیل گروسی نے پیشکش کی ہے کہ وہ یوکرئنی جوہری تنصیبات کی سلامتی سے متعلق مذاکرات کے لیے چرنوبل جا سکتے ہیں۔
چرنوبل کا جوہری بجلی گھر سن 1986 میں ایک حادثے کا شکار ہو گیا تھا جس کی وجہ سے یورپ بھر میں تابکاری پھیلی تھی۔ 24 فروری کو روسی فوج نے چرنوبل کے متروکہ جوہری بجلی گھر پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔