جوہری ہتھیاروں میں کمی کے بجائے دوبارہ اضافہ، سپری کی تنبیہ
13 جون 2022
سویڈش دارالحکومت سٹاک ہوم میں قائم اور امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے خلاف خبردار کیا ہے۔ سپری نامی ادارے کے مطابق اس دوڑ میں چین تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔
چین کے ڈونگ فینگ سترہ نامی ہائپر سونک میزائل جن پر نیوکلیئر وارہیڈز نصب کیے جا سکتے ہیںتصویر: Pan Yulong/Xinhua/IMAGO
اشتہار
یہ بھی بین الاقوامی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں تیزی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ایٹمی اسلحے کی مخالفت کرنے والے کارکن اپنی جدوجہد میں اکیلے رہتے جا رہے ہیں۔ دیرپا امن کے قیام کے حامی تراسی سالہ روڈیگر لانسیلے ہر منگل کے روز اپنی گاڑی میں سوار ہو کر جرمنی کے مغربی شہر بیُوشل میں وفاقی جرمن فوج کے ایک فضائی اڈے تک جاتے ہیں اور وہاں اس ایئر بیس کے مرکزی دروازے کے سامنے اپنی کیمپنگ کے لیے استعمال ہونے والی کرسی پر بیٹھ کر جوہری ہتھیاروں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو اپنے اس منفرد طرز احتجاج کا مقصد یہ بتایا: ''بیُوشل میں ذخیرہ کردہ ہتھیار وہاں سے ہٹا کر تلف کیے جانا چاہییں۔‘‘
بیُوشل میں ذخیرہ کردہ بیس ایٹم بم
جرمنی میں بیُوشل کی ایئر بیس پر امریکہ کے 20 ایسے ایٹم بم ذخیرہ کیے گئے ہیں، جنہیں کسی ایٹمی حملے کی صورت میں جرمن پائلٹ اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے ان کے اہداف پر گرا سکتے ہیں۔ روڈیگر لانسیلے کا کہنا ہے کہ وہ اسی 'نیوکلیئر شیئرنگ‘ کے خلاف گزشتہ 20 برسوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں کے خلاف بیس سال سے مہم چلانے والے جرمن کارکن روڈیگر لانسیلےتصویر: Thomas Lohnes/Getty Images
صرف چھ ماہ پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ جرمنی میں عام شہریوں کی اکثریت لانسیلے جیسے امن کے سرگرم حامیوں کی ہم خیال تھی۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹس، ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور ترقی پسند فری ڈیموکریٹس نے جب مل کر حکومت تشکیل دی، تو چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں برلن میں نئی وفاقی حکومت کا ہدف تھا: ''جرمنی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہیے۔‘‘
روسی یوکرینی جنگ نے سب کچھ بدل دیا
اس سال فروری کے اواخر میں روسی صدر پوٹن نے جب ملکی افواج کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا، تو اس کے بعد شروع ہونے والی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہو سکی۔ اس دوران جب صدر پوٹن نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دے دی، تو جیسے جوہری تخفیف اسلحہ کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔
جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی طرف سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق 52 فیصد جرمن شہری اس بات کے حامی ہیں کہ جرمنی میں امریکی جوہری ہتھیار موجود رہنا چاہییں۔ اس سروے کے لیے 30 مئی سے یکم جون تک کے تین دنوں میں 1300 سے زائد جرمن باشندوں کی رائے لی گئی۔ نصف سے زائد رائے دہندگان نے اپنے ملک میں آئندہ بھی جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی حمایت کی۔ اس سے قبل 2021ء میں کرائے گئے سروے میں ایسے رائے دہندگان کی شرح صرف 14 فیصد رہی تھی۔
امریکہ کی سینڈیا لیبارٹری میں تجربے کے لیے تیار کردہ بی اکسٹھ بارہ طرز کے جدید ترین ایٹم بم کا ماڈلتصویر: Randy Montoya/Sandia Labs/CC BY-NC-ND 2.0
سوال یہ ہے کہ کیا جرمن باشندوں نے اب ایٹم بموں کی حمایت کرنا شروع کر دی ہے؟ روڈیگر لانسیلے کے مطابق لگتا ایسے ہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنے احتجاج کے دوران اپنی کرسی کے ساتھ ہمیشہ ایک دوسری کرسی خالی رکھتا ہوں، تاکہ وہاں آنے والے افراد کو اپنے ساتھ بٹھا کر بات چیت کی دعوت دے سکوں۔ اب تک تو ایسا نہیں ہوا کہ کوئی میرے پاس آ کر بیٹھا ہو اور اس نے کہا ہو کہ ہاں، آپ درست کہتے ہیں۔‘‘
جوہری دوڑ اور نئے ہتھیار
سال 2023ء کے آغاز سے جرمنی میں بیُوشل کے مقام پر امریکی جوہری ہتھیاروں کو بدلنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔ تب وہاں اب تک موجود ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ جدید B61-12 طرز کے جوہری ہتھیار ذخیرہ کیے جائیں گے۔ اس طرز کے نئے ایٹم بم نہ صرف اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے گائیڈڈ ہوں گے بلکہ ان کی ممکنہ ہلاکت خیزی کا دائرہ بھی بڑا وسیع اور متنوع ہو گا۔
یہ نئے امریکی ایٹم بم 0.3 سے لے کر 340 کلو ٹن تک کی طاقت کے حامل ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ناگاساکی پر 'فیٹ مین‘ نامی جو ایٹم بم گرایا تھا، اس کی طاقت صرف 25 کلو ٹن تھی۔
امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید سے جدید تر بنانے کے لیے سالانہ تقریباﹰ 10 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ جرمنی، جو خود تو کوئی ایٹم بم نہیں بناتا، انتہائی جدید اور F-35 طرز کے ان امریکی جنگی طیاروں کی خرید پر اربوں یورو خرچ کر رہا ہے، جن کی مدد سے یہ نئے امریکی ایٹم بم اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
عشروں کی جوہری تخفیف اسلحہ کے بعد دوبارہ اضافہ
سویڈن میں قائم سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی پیر 13 جون کو جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عشروں تک اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی کے بعد اب تمام ایٹمی طاقتیں اپنے نیوکلیئر وارہیڈز پر اور ان کے استعمال کے لیے درکار ڈلیوری سسٹمز پر بہت زیادہ مالی وسائل خرچ کر رہی ہیں۔
اس عسکری سرمایہ کاری میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ان میزائلوں، جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں اور جنگی طیاروں کا حصول بھی شامل ہے، جن کے ذریعے جوہری ہتھیاروں سے حملے کیے جا سکتے ہوں۔
سب سے زیادہ جوہری ہتھیار روس اور امریکہ کے پاس
سپری (SIPRI) کے محقق ہانس کرسٹینسن اور ان کے ساتھیوں نے جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے پاس موجود ایٹمی اسلحے اور ان میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں برسوں تک چھان بین کی ہے۔ ہانس کرسٹینسن کہتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں 12 ہزار 705 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے 90 فیصد سے زائد صرف دو ممالک روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
ہانس کرسٹینسن امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کے نیوکلیئر انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ایٹمی طاقتیں اپنے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید تر بنانے میں مگن ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ہاں پہلے سے موجود ایسے ہتھیاروں کی نئی ورائٹی تیار کر رہی ہیں بلکہ ساتھ ہی نت نئی اقسام کے نئے ہتھیار بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سب ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی ہے۔‘‘
چین 'ٹاپ اٹامک لیگ‘ میں شمولیت کا خواہش مند
عالمی سطح پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں جو ایک ملک باقی سب ایٹمی طاقتوں سے مختلف اور تیز رفتاری سے کام کرتا نظر آتا ہے، وہ چین ہے۔ کرسٹینسن کے مطابق، ''چین میں جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے نظر آنے والی منفرد پیش رفت ایسے ہتھیاروں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے انتہائی قابل ذکر ہے۔ بیجنگ حکومت کے ماضی کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق فیصلوں کو سامنے رکھا جائے، تو ایسی کسی پیش رفت کی پہلے کوئی مثال نظر نہیں آتی۔‘‘
ہانس کرسٹینسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چین جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے، اس بارے میں ہم قطعی لاعلم اس لیے ہیں کہ بیجنگ حکومت ملکی ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کرتی۔‘‘
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔
تصویر: DW/A. Freund
11 تصاویر1 | 11
سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ گزشتہ صرف دو برسوں میں چین کے مختلف صحرائی علاقوں میں بیلسٹک میزائلوں کی تقریباﹰ 300 ذخیرہ گاہیں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ ہانس کرسٹینسن کے الفاظ میں، ''یہ بات یقینی ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ چینی فوج عالمی معیار کی فوج ہو اور بظاہر اس سے ان کی مراد ایسی فوج ہے جو جدید جوہری ہتھیاروں سے بھی مسلح ہو۔‘‘
پاکستان کی بھارت پر معمولی برتری
سپری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تک روس کے پاس 4477 جوہری ہتھیار تھے اور امریکہ کے پاس 3708 وارہیڈز۔ ان دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے چین 350 وارہیڈز کے ساتھ تیسرے، فرانس 290 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ چوتھے اور برطانیہ اپنے 180 نیوکلیئر وارہیڈز کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا۔
جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت بھی اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں اسلام آباد کو نئی دہلی پر معمولی برتری حاصل ہے۔ سپری کے مطابق پاکستان کے پاس 165 نیوکلیئر وارہیڈز ہیں اور بھارت کے پاس 160۔
آٹھویں نمبر پر اسرائیل کا نام آتا ہے، جس کے پاس 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں جبکہ کمیونسٹ شمالی کوریا کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کا اندازہ 20 لگایا جاتا ہے۔
پیٹر ہِلّے (م م / ب ج)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔