'جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے'
6 اگست 2020
جرمنی نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جانے کی برسی کے موقع پر کہا ہے کہ دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دن کیا ہوا تھا اور جوہری طاقتوں کو نیوکلیائی معاہدوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سختی سے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ''جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے اور نیوکلیائی اسلحوں میں تخفیف کے سلسلے میں نئی تحریک اور مہم چلانے کی درخواست کی ہے۔'' ان کا یہ بیان جاپان کے شہر ہیرو شیما پر جوہری بم گرانے کی 75ویں برسی کے موقع پر آیا ہے، جب امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر نیوکلیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ امریکا نے چھ اگست سن 1945 کی صبح ہیروشیما پر جوہری بم گرایا تھا جس میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد، جن میں سے بیشتر فوری طور پر، ہلاک ہوگئے تھے۔
تاریخی اعتبار سے دشمن ملک کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس بارے میں کہا، ''دنیا کو کبھی بھی یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہیرو شیما میں کیا ہوا تھا اور پھر چند روز بعد ناگاساکی میں کیا ہوا۔۔۔۔ اور آخر کیوں؟''
جرمن وزیر خارجہ کے طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جرمنی اور جاپان عالمی جوہری طاقتوں سے، ''مطالبہ کرتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے اور جوہری تخفیف اسلحہ سے متعلق ان کی جو خصوصی ذمہ داریاں ہیں ان پر وہ سختی سے عمل کریں۔''
جرمن وزیر خارجہ نے عالمی جوہری طاقتوں پر اس بات کے لیے نکتہ چینی کی کہ ان کی کوتاہیوں کے سبب اس سے متعلق بین الاقوامی معاہدے بے اثر اور ختم ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دوسروں کے لیے ایک ناقص مثال قائم ہوتی ہے جس سے، ''شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی جوہری ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا حوصلہ ملا۔'' ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ جوہری طاقتیں ''وقتی مفاد کے لیے غیر ذمہ دارانہ طاقت کی سیاست کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ جس انداز میں شمالی کوریا نے جوہری طاقت کے حصول کے لیے اپنے عزائم اور خواہشات کا اظہار کیا ہے، اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی برادری کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
مریکا جاپان کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اس سلسلے میں جو دلائل پیش کرتا رہاہے وہ آج تک متنازعہ ہیں۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے دوسرے شہر ناگا ساکی پر بھی جوہری بم گرانے کا حکم دیا تھا۔ ناگا ساکی پر دوسرا بم نو اگست سنہ 1945 کو گرایا تھا اور اس حملے میں 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس طرح جاپان نے 15 اگست کو اتحادی فوج کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا اور جاپانی حکومت نے دو ستمبرکو ہتھیار ڈالنے کے سلسلے میں ایک باقاعدہ معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔
ہیروشیما، ناگاساکی: ایٹمی قیامت کو ستّر سال بیت گئے
02:49
اس وقت امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین جیسے پانچ ممالک کو عالمی جوہری طاقت مانا جاتا ہے۔ بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کر چکے ہیں جبکہ غالب یقین یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں۔ لیکن یہ ممالک سنہ 1970 میں ہونے والے جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق عالمی معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔
امریکا اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے سلسلے میں ایک معاہدہ تھا تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے اس سے یہ کہہ کر الگ ہونے کا اعلان کیا ہے کہ روس اس طرح کے معاہدے کی پابندی نہیں کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں فریقین کے درمیان 'دی نیو اسٹریٹیجک آرمس ریڈکشن ٹریٹی' (ایس ٹی اے آرٹی) کے نام سے بھی ایک معاہد ہے جس کی معیاد آئندہ برس فروری میں ختم ہورہی ہے اور اگر اس معاہدے کی بھی تجدید نہیں ہوتی ہے تو پھر دونوں کے درمیان جوہری تخفیف اسلحے اور اس پر کنٹرول کا کوئی بھی معاہدہ باقی نہیں رہے گا۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔