جوہری ہتھیاروں کے خلاف دفاع کا یورپی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
11 مارچ 2022
ایٹمی ہتھیار ماضی میں سرد جنگ کی علامت تھے لیکن یوکرین کے خلاف جنگ میں روسی صدر پوٹن کی دھمکیوں کے بعد ان کے بارے میں اب عوامی سطح پر گفتگو کی جانے لگی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے خلاف دفاع کا یورپی نظام کیسے کام کرتا ہے؟
اشتہار
یوکرین پر فوجی چڑھائی کے تقریباﹰ ایک ہفتے بعد جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بالواسطہ لیکن اعلانیہ دھمکیاں دیں، تو پورے یورپ میں ان پر بہت پرجوش ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ صدر پوٹن نے مغربی دنیا کو اپنی اس دھمکی کے بعد یہ بھی کہا کہ انہوں نے مارچ کے اوائل میں جوہری ہتھیاروں سے مسلح روسی آبدوزوں اور موبائل راکٹ یونٹوں کو عسکری مشقوں کے لیے بھیج دیا ہے۔
روس کے پاس 6300 سے زائد نیوکلیئر وارہیڈز موجود ہیں اور یہ دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کے پاس تقریباﹰ 5800 نیوکلیئر وارہیڈز ہیں اور یہ ملک نیٹو میں جوہری ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہے۔ مغربی دفاعی تنظیم نیٹو میں امریکہ کے اتحادی ممالک میں سے فرانس کے پاس تقریباﹰ 300 اور برطانیہ کے پاس بھی تقریباﹰ 215 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں کی اصل تعداد غیر واضح اس لیے ہے کہ ایٹمی طاقتیں کہلانے والے ممالک اپنے اپنے جوہری پروگراموں اور ایسے ہتھیاروں سے متعلق معلومات خفیہ رکھتے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں سے حملے کے خلاف یورپی دفاعی نظام
امریکہ جب اپنے بارے میں جوہری ہتھیاروں سے حملے کے خلاف دفاعی ڈھال کا ذکر کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یورپ کے خلاف ایسا کوئی فوجی حملہ بھی خود بخود رک جائے گا۔ 'دفاعی ڈھال‘ سے مراد اکثر یہ لی جاتی ہے کہ دشمن کم از کم نیٹو کے رکن کسی بھی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے تو حملہ نہیں کرے گا، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اپنے خلاف ایٹمی ہتھیاروں سے جوابی حملے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔
ایسے کسی عسکری جواب کا فیصلہ نیٹو کی رکن تینوں جوہری طاقتیں کر سکتی ہیں اور عملاﹰ ایسا جواب دے بھی سکتی ہیں۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ، ان تینوں ممالک کے پاس اسٹریٹیجک نوعیت کے جوہری ہتھیار موجود ہیں، جو بوقت ضرورت ایٹمی آبدوزوں کے ذریعے بھی دشمن کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
دشمن کو ڈرا کر دور رکھنے کی نفسیات
نیٹو کی رکن تینوں ایٹمی طاقتیں آپس میں بھی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دشمن کو ڈرا کر رکھنے اور بہت محتاط رہنے پر مجبور کرنے کے لیے مختلف طرح کی سوچ پر عمل پیرا ہیں۔ یورپ میں فرانس اور برطانیہ اس بات کے قائل ہیں کہ دشمن کو ایسے کسی محتاط رویے کا حامل بنائے رکھنے کے لیے کم سے کم جوہری صلاحیت ہی کافی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لڑی جانے والی کوئی بھی جنگ کئی روز تک جاری رہنے والی تو کبھی نہیں ہو گی۔ پیرس اور لندن کے لیے بس اتنی جوہری صلاحیت ہی کافی ہے کہ بوقت ضرورت دشمن کو جواب دیا جا سکے۔
اس کے برعکس امریکہ اس بات کا قائل ہے کہ وسیع تر تیاریوں کے ساتھ دشمن کو جوہری ہتھیاروں کے ذریعے بہت ڈرا کر رکھا اور انتہائی محتاط رہنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کو بھی کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے پس پردہ امریکی فوجی منصوبہ سازوں کی یہ سوچ ہے کہ اگر کبھی کوئی ایٹمی جنگ ہوئی بھی، تو وہ 'محدود‘ ہی ہو گی۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
بین الاقوامی قانون کے تناظر میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ دنیا میں کسی ایک بھی ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے عام شہریوں پر بھی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے اور یہ بات بین الاقوامی قانون کی بہت بڑی خلاف ورزی ہو گی۔ مخصوص حالات میں کسی محدود ایٹمی جنگ کا ایک ممکنہ منظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بہت بڑے کھلے سمندر میں کسی جنگی بحری جہاز کو محدود جوہری حملے کا نشانہ بنایا جائے۔
اشتہار
جرمنی یورپی جوہری دفاعی نظام میں کس طرح شامل ہے؟
جرمنی یورپ کے 'نیوکلیئر ڈیٹیرینٹ‘ پروگرام میں اپنے ٹورناڈو کہلانے والے جنگی طیاروں کے ساتھ شامل ہے۔ جرمن ایئر فورس کے یہ طیارے وفاقی صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں بیوشل کے مقام پر تعینات ہیں۔ نیٹو کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے امریکہ کی طرف سے کسی بھی جوہری حملے یا جوابی حملے کی صورت میں ان طیاروں کے جرمن پائلٹ ہی ایٹمی ہتھیاروں کو ان کے اہداف پر گرائیں گے۔ اس ممکنہ صورت حال کی ہر سال ایک بار وفاقی جرمن فضائیہ کے پائلٹ باقاعدہ فوجی مشق بھی کرتے ہیں۔
نیٹو کے رکن ممالک کے طور پر کسی ممکنہ جوہری جنگی منظر نامے میں جرمنی کے ساتھ ساتھ نیدرلینڈز، بیلجیم اور اٹلی بھی اپنی عملی شرکت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دفاعی ماہرین کے اندازوں کے مطابق یورپ میں ایسے جنگی طیاروں کے ذریعے ممکنہ طور پر گرائے جانے کے لیے اس وقت بھی 100 سے لے کر 150 تک جوہری ہتھیار بالکل تیار ہیں۔ برلن میں قائم فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست نامی تھنک ٹینک کے دفاعی اور سیاسی امور کے ماہر پیٹر روڈولف کے مطابق یہ ایٹمی ہتھیار ماضی کی دفاعی پیداوار ہیں اور آج کے دور میں ان کی فوجی اہمیت محدود ہے۔ پیٹر روڈولف کہتے ہیں، ''ان جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے پہلے دشمن کے فضائی دفاع کے نظام کو ناکارہ بنانا لازمی ہوتا ہے اور ایسا کرنا تو بظاہر صرف کسی بڑی جنگ میں ہی ممکن ہوتا ہے۔‘‘
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
جوہری ہتھیاروں سے حملے کی منصوبہ بندی کا ذمے دار کون؟
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں 1996ء سے ایک جوہری منصوبہ بندی گروپ (این پی جی) قائم ہے، جس میں مختلف طرح کے امکانی حالات میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق مشاورت کی جاتی ہے۔ اس نیوکلیئر پلاننگ گروپ میں فرانس کے سوا نیٹو کی تمام رکن ریاستوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ فرانس اس گروپ میں اس لیے شامل نہیں کہ وہ نیوکلیئر ڈیٹیرینٹ افیئرز میں خود اپنے لیے متعین کردہ رستے پر ہی چلنے کا قائل ہے۔
اس گروپ کا ہر سال کم از کم ایک اجلاس ہوتا ہے، جس میں رکن ممالک کے وزرائے دفاع شرکت کرتے ہیں۔ اگر کبھی اس گروپ کے ارکان کے کسی ہنگامی اجلاس کی ضرورت پڑے، تو اس میں نمائندگی نیٹو میں رکن ممالک کے سفیر کرتے ہیں۔
نیٹو نے اپنی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے لیے باقاعدہ رہنما ضابطے بھی طے کر رکھے ہیں لیکن ان ضابطوں کی تفصیلات کبھی جاری نہیں کی جاتیں۔ نیٹو کی طرف سے خود کو ہمیشہ ہی ایک جوہری دفاعی اتحاد بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس اتحاد کا کوئی باقاعدہ اعلان شدہ رہنما جوہری منشور نہیں ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حتمی فیصلہ، اختیار کس کے پاس؟
جرمنی، نیدرلینڈز، بیلجیم اور اٹلی میں موجود امریکی جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے فیصلے کا حمتی اختیار اب تک امریکی صدر کے پاس ہے۔ امریکی صدر ایسے ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دے سکتے ہیں اور ان ہتھیاروں کو اپنے جنگی طیاروں کے ذریعے ان کے اہداف پر گرانا متعلقہ ملک کی فضائیہ کا کام ہوتا ہے۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
ایسی کسی ممکنہ صورت حال میں مغربی دفاعی اتحاد میں باقاعدہ مشاورت بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ مشاورت نیٹو کے رکن دیگر ممالک کے ساتھ نارتھ اٹلانٹک کونسل کی سطح پر ممکن ہے۔
اس کے برعکس فرانسیسی جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف فرانسیسی صدر کے پاس ہوتا ہے۔ برطانیہ میں یہ اختیار ملکی وزیر اعظم کو دیا گیا ہے۔
یوکرینی جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا اسمتعمال ممکن ہے؟
برلن میں فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست کے جوہری دفاعی امور کے ماہر پیٹر روڈولف کے مطابق یوکرین کی جنگ میں روسی جوہری ہتھیاروں کے عملی استعمال کا کوئی امکان نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''روسی صدر پوٹن کی طرف سے دی جانے والی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں محض سیاسی مفاد اور نتائج کے لیے ہیں۔‘‘
پیٹر روڈولف کے الفاظ میں، ''یہ دھمکیاں امریکہ کو دیا جانے والا پیغام ہیں کہ وہ یوکرین کے تنازعے میں خود کو ایک خاص حد سے زیادہ ملوث نہ کرے۔‘‘ نیوکلیئر وارہیڈز کے ممکنہ استعمال کی ایسی ہی دھمکیاں تو آٹھ سال قبل روس کی طرف سے اس وقت بھی دی گئی تھیں، جب اس نے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا کو اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا۔