جوہری ہتھیاروں کے معاہدے سے امریکی دستبرداری، روس کا انتباہ
21 اکتوبر 2018
روس نے خبردار کیا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں روس کے ساتھ کیے گئے جوہری ہتھیاروں سے متعلق آئی این ایف معاہدے سے امریکی دستبرداری کا اعلان ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ روس کے بقول یہ معاہدہ عالمی سلامتی کے لیے بے حد اہم ہے۔
اشتہار
روس کےنائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف نے روس کی سرکاری نیوز ایجنسی تاس کو بتایا، ’’یہ ایک خطرناک اقدام ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ عالمی برادری کے لیے یہ امریکی فیصلہ نہ صرف نا قابل فہم ہو گا بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کی جائے گی۔‘‘
ریابکوف نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے تناظر میں عالمی سکیورٹی اور اسٹریٹیجک استحکام کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
روس نے امریکا کی جانب سے ’بلیک میل‘ کیے جانے کی اُن کوششوں کی بھی مذمت کی جن کے ذریعے وہ رعایتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ریابکوف نے اپنے ایک اور بیان میں کہا،’’ اگر امریکا اسی طرح بد سلیقہ اور پریشان کُن طریقوں سے بین الاقوامی معاہدوں سے باہر نکلتا رہا تو ہمارے پاس عسکری ٹیکنالوجی سمیت متبادل اقدامات کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ تاہم ہم اس انتہا تک نہیں جانا چاہتے۔‘‘
امریکی صدر نے گزشتہ روز روس کے ساتھ تین عشروں پرانا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئےکہا تھا کہ روس اس معاہدے کی کئی برسوں سے خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ معاہدہ امریکا کے ليے نئے ہتھیار بنانے میں رکاوٹ ہے۔ ان کے بقول اگر چین اور روس ہتھیاروں کی پیداوار روکنے پر آمادہ نہیں ہوتے تو امریکا بھی جلد ہی نئے ہتھیار تیار کرنا شروع کرے گا۔
سن 1987 میں امریکا اور سوویت یونین کے مابین کم اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے جوہری اور روایتی طرز کے میزائلوں پر پابندی کا ایک معاہدہ ’انٹر میڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی‘ یا آئی این ایف طےکیا گیا تھا۔ اس ٹریٹی پر اُس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے دستخط کیے تھے۔
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ روس آئی این ایف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمین سے فائر کیے جانے والے میزائل نظام کی تیاری میں مصروف ہے جس سے وہ یورپ پر مختصر وقت میں جوہری حملہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف نے تاہم ان امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واشنگٹن حکومت ہی کو معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ریابکوف نے آج اتوار 21 اکتوبر کو ایک بیان میں کہا کہ روس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اس پر سختی سے عمل کیا ہے۔
دوسری جانب امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن آج ماسکو پہنچ رہے ہیں۔ ریابکوف نے بولٹن کی آمد کے تناظر میں کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکی سلامتی کے قومی مشیر کے ساتھ آئندہ دو روز میں ہونے والی ملاقاتوں میں وہ ہم پر واضح کریں گے کہ جوہری ہتھیاروں کے معاہدے کے سلسلے میں امریکا حتمی طور پر کس سمت میں چلنا چاہتا ہے۔‘‘
سن 1987 میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت زمین سے درمیانی فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں پر پابندی عائد کی گئی تھی اور یہ فاصلہ پانچ سو سے پانچ ہزار پانچ سو کلو میٹر ہے۔
ص ح / ا ب ا / نیوز ایجنسی
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔