’جوہری ہتھیار جلدی ختم، تو شمالی کوریا کی ترقی بھی جلد‘
13 مئی 2018
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ شمالی کوریا جتنا جلدی اپنے جوہری ہتھیار ختم کرے گا، اتنا ہی جلدی ترقی اور امن اس کا مقدر ہوں گے۔
اشتہار
اتوار تیرہ مئی کے روز امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے بات چیت میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ اور موجودہ وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ شمالی کوریا کے ساتھ کسی جوہری ڈیل تک پہنچنے کے لیے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو سلامتی کی ضمانت دینے کی ضرورت ہو گی۔ گزشتہ ہفتے مائیک پومپیو نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے ملاقات کی تھی۔ کم جونگ اُن بارہ جون کو سنگاپور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک تاریخی ملاقات کرنے والے ہیں اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا پیونگ یانگ کا دورہ اسی ملاقات کی تیاریوں کا حصہ تھا۔
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہدف ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار مستقل اور قابل تصدیق انداز سے ختم کیے جائیں، جب کہ اس کے عوض پیونگ یانگ کو اقتصادی ترقی میں مدد فراہم کی جائے۔
اتوار کو ’فاکس نیوز سنڈے‘ میں پومپیو نے کہا کہ پیونگ یانگ کے ساتھ کسی جوہری ڈیل تک پہنچنے کے لیے ممکنہ طور پر کم جونگ اُن کو سکیورٹی کی ضمانتیں دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات تو نہیں بتائیں، تاہم ماضی میں پیونگ یانگ کے ساتھ بین الاقوامی بات چیت میں امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ختم کر دیتا اور ایٹمی پروگرام روک دیتا ہے، تو ایسی صورت میں امریکا شمالی کوریا پر روایتی یا غیر روایتی ہتھیاروں سے حملہ نہیں کرے گا۔
مائیک پومپیو نے ایران کے حوالے سے کہا کہ وہ یورپی اتحادی ممالک کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں، تاکہ ایران سے متعلق ایک نئے معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ دوسرے جانب یورپی ممالک اس معاہدے کو ہرحال میں برقرار رکھنے کے لیے سرگرم ہیں۔
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔
تصویر: tooonpool.com/Marian Kamensky
4 تصاویر1 | 4
امریکا کے اخراج کے بعد ایران پر امریکی پابندیاں عائد ہونا ہیں،تاہم اس طرح کئی یورپی کمپنیاں بھی ان پابندیوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔
پومپیو نے کہا کہ آئندہ دنوں اور ہفتوں میں یورپی ممالک کے ساتھ کسی ایسے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی، جو ایران کے ’خراب رویے‘ کا سدباب کرے اور صرف اس کے جوہری پروگرام ہی نہیں بلکہ میزائل پروگرام کو بھی روکتے ہوئے دنیا کو زیادہ محفوظ بنائے۔