بھارت کی معروف اداکارہ جوہی چاولہ کا دعویٰ ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی سے پيدا ہونے والی تابکاری سے انسانوں اور حیوانوں پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تصویر: Valery Hache/AFP/Getty Images
اشتہار
بالی ووڈ کی اداکارہ جوہی چاولہ نے فائیو جی ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرائی ہے۔ اپنی درخواست کے مسودے ميں انہوں نے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ مواصلات کی مختلف کمپنیوں نے فائیو جی نيٹ ورکس کی تنصيب سے متعلق جن منصوبوں کا اعلان کیا ہے، ان کے انسانوں پر سنگین اور ناقابل تلافی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے زمین کے ماحول کو بھی مستقل بنيادں پر نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
بھارتی حکومت نے حال ہی میں چند مواصلاتی کمپنیوں کو ملک میں فائیو جی موبائل نیٹ ورک کی آزمائش اور اس کے لیے بنيادی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی منظوری دی تھی۔ تاہم اداکارہ جوہی چاولہ نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
تصویر: DW/Tewari
انہوں نے اپنی درخواست میں موقف اختيار کیا ہے کہ اگر فائیو جی کے مجوزہ منصوبوں پر عمل ہوتا ہے، تو اس سے انسان، چرند و پرند اور دیگر حشرات الارض کے ساتھ ساتھ متعدد اقسام کے پودے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس میں کہا گيا ہے کہ ملک میں جو موجودہ 4 جی نیٹ ورکس ہيں، ان کے مقابلے میں فائیو جی نیٹ ورک کی فریکوئنسی سے جو تابکاری پیدا ہو گی، وہ اس سے بھی دس سے سو گنا تک زیادہ ہو گی۔ اور اسی وجہ سے تمام شہری، بشمول نباتات اور حیوانات اس سے ہونے والے نقصان کی زد میں رہیں گے۔
تصویر: AP
دہلی ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو دو رکنی بینچ کے حوالے کر ديا ہے جس پر جلد ہی سماعت متوقع ہے۔ اداکارہ جوہی چاولہ کافی دنوں سے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ بھارت میں ماحولیات کے ماہر اس بات پر خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ فائیو جی کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والی تابکاری بہت مضر ثابت ہو گی۔ جوہی چاولہ نے اسی تناظر ميں یہ کیس دائر کیا۔
چاولہ کے وکیل دیپک کھوسلا نے یہ مقدمہ دائر کرایا۔ اس میں کہا گيا ہے کہ حکومت یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مضر نہيں ہے اور اگر ایسا ہے، تو حکومت عوامی سطح پر اس بات کی وضاحت پیش کرے کہ آخر کس طرح اس سے، ’انسانیت، نباتات و حیوانات کيسے محفوظ ہيں۔‘
تصویر: Valery Hache/AFP/Getty Images
بھارتی حکومت نے ابتدائی طور پر دہلی، ممبئی، کولکتہ، بينگلور، احمد آباد اور حیدر آباد جیسے شہروں میں فائیو جی نیٹ ورک کے تجربات کی اجازت دی ہے۔ اس پر تیزی سے کام جاری ہے اور اگر سب کچھ درست رہا، تو اسے جلد ہی نافذ کر ديا جائے گا۔
اداکارہ جوہی چاولہ کہتی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں تاہم ان کے پاس، ’یہ یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ یہ تابکاری لوگوں کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ اور مضر ہے۔‘
بھارت میں جب ٹو جی فور جی نیٹ ورک متعارف کیا گيا تھا تو اس وقت بھی ماحولیات سے متعلق بہت سی تنظیموں نے سوالات اٹھائے تھے۔ خاص طور پر فور جی کی تابکاری کی وجہ سے جب دہلی جیسے بڑے شہروں میں گوریا جیسے چھوٹے پرندے ختم ہونے شروع ہو گئے، تو اس پر کافی بحث ہوئی تھی۔
فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
تصویر: UN Photo/IAEA/Greg Webb
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Abc Tv
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
تصویر: Reuters
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: REUTERS
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
تصویر: Reuters
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/G. Rueter
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔