جو بائيڈن صدارتی اليکشن ميں کاميابی کے ليے پر اميد
7 نومبر 2020
ڈيموکريٹک پارٹی کے صدارتی اميدوار جو بائيڈن نے امکان ظاہر کيا ہے کہ وہ صدارتی اليکشن ميں کامياب ہو سکتے ہيں۔ جن چند رياستوں ميں ووٹوں کی گنتی جاری ہے، وہاں بائيڈن کو اپنے حريف موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔
اشتہار
سابق نائب صدر اور ڈيموکريٹک پارٹی کے صدارتی اميدوار جو بائيڈن نے کہا ہے کہ وہ صدارتی اليکشن ميں کامياب ہو سکتے ہيں۔ بائيڈن نے گزشتہ رات اپنی آبائی رياست ڈيلاويئر ميں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب تک گنتی کيے گئے ووٹ اور اعداد و شمار صاف ظاہر کرتے ہيں کہ وہ کامياب ہو گئے ہيں۔ سابق نائب صدر نے بتايا کہ انہوں نے اور کملا ہارس نے وائٹ ہاؤس منتقلی کے ليے ماہرين سے ملاقاتيں شروع کر دی ہيں۔
امريکا ميں تين نومبر کو منعقد صدارتی اليکشن کے بعد اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی اميدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈيموکريٹک پارٹی کے صدارتی اميدوار جو بائيڈن کے درميان کانٹے کا مقابلہ جاری ہے اور اب آخری چند رياستوں کے نتائج باقی ہيں، جن ہی کی بنياد پر يہ فيصلہ ہو گا کہ امريکی تاريخ کے ان اہم انتخابات ميں کون سرخوو ہوا۔ کورونا کی عالمی وبا کے تناظر ميں اب بار امريکا ميں ڈاک کے ذريعے ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی ميسر تھی جسے کئی ملين افراد نے بروئے کار لاتے ہوئے قبل از وقت رائے دہی کے عمل ميں شرکت کی۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
جو بائيڈن کو بقيہ رياستوں ميں برتری حاصل
امريکی نشرياتی ادارے ابھی تک ٹرمپ کے 213 اور بائيڈن کے 253 اليکٹورل کالج ووٹ بتا رہے ہيں۔ پینسیلوینيا، جارجيا، نيواڈا اور ايريزونا ميں اب بھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ ان سب ہی رياستوں ميں اب بائيڈن کو ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔ پینسیلوینياکے اليکٹورل ووٹوں کی تعداد بيس ہے اور وہاں کاميابی کی ممکنہ صورت ميں بائيڈن انتخابات جيت جائيں گے۔ بصورت ديگر بائيڈن کو تين ديگر رياستوں ميں سے دو ميں کاميابی حاصل کرنی پڑے گی۔ ہفتے کی صبح کی صورتحال کے مطابق ايريزونا ميں ستانوے فيصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہو چکی ہے اور وہاں بائيڈن کو اپنے حريف پر 29,861 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ نيواڈا ميں تيرانوے فيصد ووٹ گنے جا چکے ہيں، وہاں بائيڈن کے 22,657 ووٹ زيادہ ہيں۔ جارجيا ميں ننانوے فيصد ووٹوں کی گنتی کے بعد بائيڈن 4,289 ووٹوں کے ساتھ آگے ہيں۔ پنسلوانيا ميں چھيانوے فيصد ووٹ گنے جا چکے ہيں اور ابھی بائيڈن کو 27,130 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
امريکا ميں اس بار 147 ملين ووٹ ڈالے گئے۔ ابھی تک گنتی کيے گئے ووٹوں ميں بائيڈن کو ٹرمپ کے مقابلے ميں چار اعشاريہ ايک ملين زائد ووٹ پڑے ہيں۔ وہ آج بروز ہفتہ بھی اپنے حاميوں سے خطاب کرنے والے ہيں۔
دوسری جانب موجودہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دھاندلی کے دعوے کر رہے ہيں۔ جمعرات کو بغير کسی شواہد کے انہوں نے دھاندلی کا الزام لگايا اور کہا کہ اليکشن ان سے 'چرايا‘ جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے چند رياستوں ميں نتائج کو قانونی طور پر چيلنج کرنے کا بھی کہہ رکھا ہے۔