جو بائیڈن اسانج کو صدارتی معافی دے دیں گے، والد کی امید
29 دسمبر 2020
جولیان اسانج کے والد نے امید ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن ان کے بیٹے کو صدارتی معافی دے دیں گے۔ امکان ہیں کہ برطانوی حکومت وکی لیکس کے بانی اسانج کو امریکا کے سپرد کر دے گی۔
اشتہار
برطانیہ کی ایک عدالت چار جنوری کو جولیان اسانج کی امریکی حوالگی کے حوالے سے دائر کردہ ایک درخواست پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔ اسانج کے والد جان شپٹن نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ عدالت ان کے بیٹے کو امریکا حوالے کرنے کے حق میں فیصلہ سنا سکتی ہے۔
تاہم 76 سالہ شپٹن نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اسانج کو معافی دے دیں گے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے بیٹے کی صدارتی معافی کی درخواست کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
’شفاف کارروائی نہیں ہوئی‘
شپٹن کا کہنا تھا کہ اگر جج قواعد و ضوابط کے تحت کارروائی کریں گے تو وہ اسانج کو امریکا حوالے کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اگر ری پبلکن پارٹی کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو امریکا پہنچنے پر وہ اسانج کو صدارتی معافی دے سکتے ہیں۔
جان شپٹن کے مطابق وہ امریکا جائیں گے اور نومنتخب صدر جو بائیڈن کی ٹرانزیشن ٹیم سے اپنے بیٹے کی معافی کی وکالت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم یعنی آزادی رائے امریکی جمہوریت کے لیے ایک خزانے کے مانند ہے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔
جان شپٹن اس وقت آسٹریلیا میں ہیں اور امریکا سفر کی خاطر حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے فی الحال آسٹریلوی حکومت نے سفری پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
جولیان اسانج اس وقت برطانیہ میں بیلمارش کی جیل میں ہیں۔ کووڈ انیس کی وجہ سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث وہ کسی سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ تاہم وہ روزانہ دس منٹ کے لیے اپنے بچوں اور بیس منٹ کے لیے اپنے وکلاء سے ٹیلی فون پر بات چیت کر سکتے ہیں۔
’اسانج بنیادی حقوق سے محروم ہیں‘
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نیلز میلزر نے بھی کہا ہے کہ اسانج کی قسمت کا فیصلہ صرف جو بائیڈن کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں میلزر نے کہا کہ اسانج کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے خلاف لندن میں شفاف مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔
نیلز میلزر کے مطابق برطانوی جیل میں قید جولیان اسانج کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ اسانج کو معافی دے دیں۔
انچاس سالہ اسانج پر اگر امریکا میں الزامات ثابت ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوج کی کلاسیفائیڈ دستاویزات چوری کر کے انہیں عام کیے ہیں تو انہیں 175 برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔
ان خفیہ دستاویزات کے شائع ہونے کے بعد عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔
برطانیہ میں واقع ایکواڈور کے سفارتخانے میں سات برسوں سے پناہ لیے ہوئے اسانج کو برطانوی پولیس نے اپریل سن دو ہزار انیس میں گرفتار کر لیا تھا۔ ایکواڈور میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نئی قائم ہونے والی حکومت نے اسانج کو مزید پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ع ب / ع ح/ ڈی پی اے
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔