صحافی جمال خاشقجی پر امریکی محکمہ خفیہ کی رپورٹ آنے سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی عرب کے شاہ سلمان کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔
اشتہار
وائٹ ہاؤس نے جمعرات 25 فروری کو ایک بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی عرب کے فرما ں روا شاہ سلمان کے درمیان فون پر بات چیت کی تصدیق کی تاہم سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔
اس قتل سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کا منظر عام پر آنا دونوں ملکوں کے درمیان قریبی دیرینہ رشتوں کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔
رپورٹ میں کیا پہلو سامنے آ سکتے ہیں؟
جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کلاسیفائیڈ یعنی خفیہ دستاویز ہے اور خیال کیا جا تا ہے کہ اس میں اس قتل کی ذمہ داری ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کی جاسکتی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی شہزاد ہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں اور اقتدار پر ان کی گرفت کی کوششوں پر نکتہ چینی کے لیے معروف تھے۔ انہیں 2018 میں استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔
تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل
01:23
سعودی عرب نے اس قتل کے لیے پانچ افراد کو بیس بیس برس قید کی سزا بھی سنائی ہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تفتیش کے بعد سن 2018 میں ہی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ شاہ سلمان کے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی غالبا ًاس قتل کا حکم دیا تھا۔ تاہم یہ رپورٹ اب تک ریلیز نہیں کی گئی اور اب اسے ریلیز کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
بائیڈن اور شاہ سلمان میں کیا بات ہوئی؟
وائٹ ہاؤس نے بات چیت سے متعلق اپنے بیان میں اس رپورٹ کا تذکرہ کیے بغیر کہا کہ جو بائیڈن اور شاہ سلمان نے اپنی دیرینہ پارٹنر شپ کے بارے میں گفت و شنید کی۔ بیان میں کہا گیا کہ صدر بائیڈن نے خواتین کے حقوق کی علمبردار لوجین الہضلول سمیت حال ہی میں سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے سعودی عرب کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
دونوں رہنماؤں نے ایران کی جانب سے مشرق وسطی کو، ''غیر مستحکم کرنے اور شدت پسند گروپوں کی حمایت کرنے جیسی سرگرمیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔''
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟
تصویر: Reuters/Haberturk
12 تصاویر1 | 12
رپورٹ اہم کیوں ہے؟
جمال خاشقجی کے قتل میں شہزادہ سلمان کی شمولیت کو تسلیم کرنے سے، امریکا اور عرب دنیا میں اس کے سب سے اہم اتحادی، سعودی عرب کے مابین تعلقات پر گہرا سایہ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ٹرمپ کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کافی بہتر ہوئے تھے کیونکہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے سعودی عرب پر نکتہ چینی سے گریز کیا کرتے تھے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے نکتہ چیں اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں چاہتی ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے سعودی عرب کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے امریکی انتظامیہ کو تھوڑا سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ امریکا ایسی پابندیاں یا اقدامات کرے جس سے محمد بن سلمان کو الگ تھلگ کیا جا سکے۔
ایسے گروپوں کو اس بات کا بھی ڈر ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اپنے دیرینہ رشتے اور ایران کے تناظر میں دفاعی نکتہ نظر سے بہت اہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے مقصد سے صرف مذمتی بیان جاری کریگی اور شاید سخت موقف اختیار نہ کرے۔