جاپان: جو بائیڈن کواڈ رہنماوں کے ساتھ کیا فیصلے کریں گے؟
23 مئی 2022
امریکی صدر جو بائیڈن جنوبی کوریا کے تین روزہ دورے کے بعد جاپان پہنچ گئے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ خطے کے لیے ایک نئے اقتصادی منصوبے کا اعلان کریں گے، اور وہیں ان کی کواڈ گروپ کے رہنماؤں سے بھی ملاقات ہو گی۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا سے ٹوکیو میں ملاقات کی ہے۔ ایشیا کے اس خطے میں، امریکہ پر اپنے اسٹریٹیجک شراکت داروں کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کرنے کا دباؤ ہے اور اس لحاظ سے، بائیدن کے اس دورے کو کافی اہم سمجھا جارہا ہے۔
ٹوکیو میں بائیڈن نے اپنے، ''اچھے دوست'' کشیدا کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور یوکرین پر روسی حملے کے وسیع تر پس منظر میں، امریکہ جاپان کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔
ٹوکیو کے مرکز میں واقع شاہی محل میں جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا کے ساتھ بات چیت کے آغاز میں جو بائیڈن نے کہا، ''امریکہ اور جاپان کا اتحاد طویل عرصے سے ہند بحرالکاہل میں امن اور خوشحالی کا ضامن رہا ہے، اور امریکہ جاپان کے دفاع کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہے۔''
بائیڈن نے پیر کی صبح شہنشاہ کے محل میں جاپان کے شاہ ناروہیٹو سے بھی ملاقات کی۔
نئے تجارتی معاہدے کے اعلان کی توقع
اطلاعات کے مطابق صدر جو بائیڈن ٹوکیو میں اپنے قیام کے دوران ہی 'انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک برائے خوشحالی' (آئی پی ای ایف) کے نام سے ایک نئے تجارتی منصوبے کا اعلان کریں گے۔
اس معاشی منصوبے کے تحت، ڈیجیٹل اکانومی، سپلائی چینز، صاف توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور انسداد بدعنوانی کے اقدامات کے شعبوں کے متفقہ معیارات کے مطابق، سبھی شراکت داروں کو ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم اس میں ٹیرف پر گفت و شنید کرنے یا مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنانے پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
اس نئے گروپ میں کون کون سے ممالک شامل ہوں گے، اس بارے میں بھی ابھی تک سرکاری سطح پر کچھ نہیں معلوم ہے۔ تائیوان نے پہلے یہ بات کہی تھی کہ وہ آئی پی ای ایف کا حصہ بننا چاہے گا، لیکن امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بائیڈن کے سفر سے پہلے واضح کر دیا تھا کہ تائی پے ان ممالک میں شامل نہیں ہو گا۔
اس گروپ میں تائیوان کا انتخاب یقینی طور پر چین کو پریشان کر سکتا تھا، جس کا مطالبہ رہا ہے کوئی بھی ملک تائیوان کے ساتھ مکمل سفارتی روابط نہ استوار کریں اور نہ ہی اسے تسلیم کریں۔
اس سے قبل سن 2015 میں بھی امریکہ نے ایک وسیع 'ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ' (ٹی پی پی) کے نام سے بھی ایک منصوبے میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا، تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2017 میں اپنے ملک کو اس منصوبے سے الگ کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ ہی پوری طرح سے ختم ہو گیا تھا۔
اشتہار
منگل کو کواڈ گروپ کا اجلاس
صدر بائیڈن اور فومیو کشیدا اس موقع پر کواڈ گروپ کی میٹنگ کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور آسٹریلیا کے نو منتخب وزیر اعظم انتھونی البانیز سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔
کواڈ گروپ امریکہ، جاپان بھارت اور آسٹریلیا پر مشتمل ہے اور ان چاروں میں سے بھارت واحد ملک ہے جس نے یوکرین پر روسی حملے کی کھل کر مذمت نہیں کی اور نہ ہی اس ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کیے ہیں۔ مودی اور بائیڈن منگل کے روز جاپان میں 'ون آن ون ' بات چیت کے لیے الگ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
سیول کا تین روزہ دورہ
ٹوکیو پہنچنے سے قبل بائیڈن جنوبی کوریا کے تین روزہ دورے پر تھے۔ امریکی حکام جاپان اور جنوبی کوریا کو چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی اور عسکری طاقت کے خلاف واشنگٹن کی کوششوں میں اپنا ساتھی گردانتے ہیں۔ وہ ان دونوں ملکوں کو یوکرین پر روسی حملے پر ماسکو کو الگ تھلگ کرنے کے لیے مغربی قیادت والے اتحاد میں بھی اپنا شراکت دار قرار دیتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔