جو بائیڈن نے پرانے مشیر کو چیف آف اسٹاف کے لیے نامزد کر دیا
12 نومبر 2020
امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کے دیرینہ مشیر رون کلائن کو اپنا چیف آف اسٹاف نامزد کیا ہے۔ ماضی میں کلائن دو نائب صدور، الگور اور جو بائیڈن، کے ساتھ اسی عہدے پر کام کر چکے ہیں۔
اشتہار
امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے آئندہ برس کے اوائل میں عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے ہی اپنی ٹیم کو ابھی سے مرتب کرنا شروع کر دیا ہے اور اسی کے تحت بائیڈن نے اپنے دیرینہ مشیر رون کلائن کو نئے چیف آف اسٹاف کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔
ٹویٹر پر اس کا اعلان کرتے ہوئے جوبائیڈن نے لکھا، ''ایک ایسے وقت جب امریکا کو دوباہ متحد اور یکجا کرنے جیسے بحران کا سامنا ہے، رون کلائن کا وسیع، متنوع تجربہ اور سیاسی میدان میں تمام طرح کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی ان کی صلاحیتیں بالکل ویسی ہی ہیں جس کی مجھے وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف میں ضرورت ہے۔''
سن 1987 میں جب جو بائیڈن نے پہلی بار صدر بننے کی کوشش کی تھی اسی وقت سے رون کلائن بائیڈن کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور اس طرح ان کے پاس کئی عشرے تک کام کرنے کا تجربہ ہے۔ جو بائیڈن ایسے وقت عہدہ صدارت سنبھالیں گے جب امریکا کو کورونا وائرس جیسی مہلک وبا اور معاشی مندی سے نمٹنے جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں رون کلائن جیسے تجربہ کار چیف آف اسٹاف کا کردار کافی اہم ہوگا۔
جو بائیڈن کے اعلان کے بعد رون کلائن کو سوشل میڈیا پر مبارک باد دینے کا ایک سلسلہ چل پڑا جس کا انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ نو منتخب صدر کی طرف جانب سے یہ ان کی عزت افزائی ہے۔ رون کلائن نے لکھا، ''میں بائیڈن اور کمالہ ہیرس کی متنوع ٹیم کی قیادت میں مددکرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاؤں گا۔''
کلائن نے 2014 میں جب ایبولا جیسی وبا اپنے عروج پر تھی، تو اس وقت صدر باراک اوباما کے ساتھ بطور کوارڈی نیٹر کے کام کیا تھا اور اس میں کامیابی کے لیے انہیں اکثر ایبولا زار کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ 2009 میں معاشی بحالی کے لیے صدر اوباما نے جو منصوبہ تیار کیا تھا اس کو بھی انجام تک پہنچانے میں کلائن کا اہم رول تھا۔
چیف آف اسٹاف کے عہدے پر ان کی نامزدگی سے کورونا وائرس جیسی مہلک وبا سے نمٹنے میں نو منتخب صدر کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔ عالمی سطح پر کووڈ 19 نے سب سے زیادہ امریکا کو متاثر کیا ہے جہاں اب تک اس وبا سے دو لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ سے بھی زیادہ افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔
رون کلائن ماحولیات کی تبدیلی اور صحت جیسے امور پر ڈیموکرٹیک پارٹی میں آزاد خیال گروہ کے نظریات اور ترجیحات پر کھلے دل سے سوچنے کے حامی ہیں اس لیے پارٹی کے اس گروہ نے ان کی نامزدگی کا خیرمقدم کیا ہے۔ سینیٹر ایلزبتھ وارین نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ایک ''بہترین انتخاب ہے۔''
ڈیموکریٹک پارٹی میں آزاد خیال گروپ اس بات پر شکوک و شبہات میں مبتلا تھے کہ جو بائیڈن کلائن کے بجائے اسٹیو ریشیٹی اور برس ریڈ جیسے سابق چیف آف اسٹاف کو کہیں دوبارہ اس عہدے کے لیے نہ نامزد کر دیں جن پر لابی کرنے والوں کے لیے کام کرنے پر کافی نکتہ چینی کا سامنا رہا ہے۔ بروس ریڈ تو اتنے اعتدال پسند تھے کہ وہ اہم اصلاحات کے نفاذ میں ناکام ثابت ہوئے تھے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔