جو بائیڈن نے مسلم ممالک پرعائد سفری پابندیاں ختم کردیں
21 جنوری 2021
امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کی متعدد پالیسیاں منسوخ کردیں جن میں مسلم ممالک پر عائد سفری پابندیاں شامل ہیں۔
اشتہار
جوبائیڈن نے امریکا کے چھیالیسویں صدر کے عہدے کا حلف لینے کے فوراً بعد سابق صدر ٹرمپ کی کئی متنازع پالیسیوں کو منسوخ کرتے ہوئے پندرہ ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے جن میں کئی مسلم اور افریقی ممالک پر عائد سفری پابندیوں کا خاتمہ اور پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی شامل ہے۔
صدر جو بائیڈن نے کہا، ”میں جن صدارتی حکم ناموں پر دستخط کررہا ہوں ان میں سے کچھ کووڈ انیس بحران کو تبدیل کرنے میں مدد کرنے والے ہیں، ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کا اس طریقے سے مقابلہ کریں گے جیسے اب تک نہیں کیا گيا اور نسلی مساوات کو فروغ دینے کے ساتھ پسماندہ طبقات کی حمایت کریں گے، یہ سب ابتدائی نکات ہیں۔‘‘
صدر بائیڈن کا کہنا تھا، ’’کام شروع کرنے کے لیے آج سے بہتر کوئی وقت نہیں۔‘‘
مسلم ملکوں پرعائد سفری پابندیاں ختم
نئے امریکی صدر کے دستخط سے جاری کیے جانے والے ابتدائی ایگزیکٹیو آرڈرز میں سے ایک کے ذریعے ان ایک درجن سے زائد مسلم اکثریتی ممالک پر عائد سفری پابندیوں کو ختم کردیا گیا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ نے عائد کی تھیں۔
سابق صدر ٹرمپ نے جنوری 2017 میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر ہی ان ملکوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ابتدائی طور پر سات مسلم اکثریتی ممالک کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن شامل تھے۔ جو بائیڈن نے ان پابندیوں کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
پیرس معاہدے میں واپسی
صدرجو بائیڈن نے اپنے ابتدائی حکم نامے میں پیرس ماحولیاتی معاہدے میں واپسی کا بھی فیصلہ کیا۔
یہ معاہدہ سن 2015 میں صدر اوباما کے دورمیں ہوا تھا۔ اس کا مقصد دنیا میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا اور گرین انرجی میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے سن 2017 میں امریکا کو اس معاہدے سے الگ کرلیا تھا۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
اب تک 189 ممالک پیرس معاہدے کی توثیق کرچکے ہیں۔ جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے اندر ماحولیات کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ رواں برس کے دوران ہی ایسی قانون سازی بھی کروانا چاہتے ہیں جس کے تحت سنہ 2050 تک امریکہ میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو مجموعی طور پر صفر پر لایا جا سکے۔
اشتہار
کورونا کے خلاف جنگ
صدر بائیڈن نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کے تحت ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعہ تمام وفاقی عمارتوں میں اور ریاستوں کے درمیان سفر کے دوران ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا۔
انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”جیسے میں پہلے سے کہتا آیا ہوں، جہاں میرے اختیارات ہیں، وہاں وفاقی املاک پر ماسک پہننا اور سماجی دوری رکھنا لازمی ہوگا۔"
بائیڈن نے امریکی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی صدارت کے ابتدائی کم از کم 100دنوں تک عوامی مقامات میں ماسک ضرور پہنیں۔
خیال رہے کہ امریکا میں کورونا وائرس سے اب تک چار لاکھ سے زیادہ افراد موت کا شکار ہوچکے ہیں۔
امریکی صدر نے امریکا کو عالمی ادارہ صحت سے باہر نکلنے پر بھی روک لگا دی۔ سابق صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او پر چین کے ساتھ قربت کا الزام لگاتے ہوئے اس عالمی ادارے کو چھوڑ دیا تھا۔
مزید صدارتی احکامات
بائیڈن انتظامیہ اگلے دس دن کے دوران مزید 53 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جن میں سے کئی کا مقصد سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو واپس لینا ہے۔
صدر بائیڈن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، 'ہمیں بہت سے چیزوں کے حوالے سے قانون سازی کرنی ہو گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے کانگریس سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
بائیڈن کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بتایا کہ پہلے دن کے فیصلے جو بائیڈن کے انتظامی اقدامات کا صرف آغاز ہے۔ ”آئندہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اضافی ایگزیکٹیو اقدامات کریں گے جو امریکی عوام کے لیے منتخب ہونے والے صدر کے امریکی عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل ہیں۔
ج ا / ص ز (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
امریکی صدور کے پالتو جانوروں کی تاریخ
وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں امریکی صدور کے ہمراہ متجسس بلیوں سے لے کر اسکینڈل کا سبب بننے والے کتوں سمیت مختلف پالتو جانور رہ چکے ہیں۔ اس مرتبہ جو بائیڈن کے ساتھ بھی ان کے پالتو جانور جلد وائٹ ہاؤس منتقل ہوں گے۔
تصویر: Marcy Nighswander/dpa/picture alliance
جو بائیڈن کا جرمن شیپرڈ
بائیڈن کے جرمن شیپرڈ نسل کے کتے کی ٹانگ اس وقت ٹوٹ گئی جب نومنتخب صدر اس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے سے پہلے اب بائیڈن کو ایک بلی دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ پالتو بلی امریکا کے دوسرے صدر رتھرفورڈ ہائس لائے تھے۔
تصویر: Stephanie Carter/dpa/picture alliance
ٹرمپ کا کوئی ’فرسٹ پیٹ‘ نہیں تھا
گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایسے واحد صدر رہے جن کے پاس کوئی پالتو جانور نہیں تھا۔ باراک اوباما کے دو کتے ’بو اور سنی‘ وائٹ ہاؤس میں آخری پالتو جانور تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Souza
کلنٹن کی بلی ’ساکس‘
سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی بلی ’ساکس‘ اور لیبراڈور کتا ان کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں رہتے تھے۔ ساکس اوول آفس میں ایک مرتبہ بل کلنٹن کے کندھوں پر چڑھ کر کھیلتی بھی دیکھی گئی تھی۔
تصویر: Everett Collection/picture alliance
وائٹ ہاؤس کی ویڈیوز میں پالتو جانور
صدر جارج ڈبلیو بش کے دور اقتدار میں وائٹ ہاؤس میں تین کتے اور ایک بلی رہتی تھی۔ بش کے پالتو جانوروں میں سب سے مشہور بارنی اور مِس بیزلی تھے۔ یہ دونوں وائٹ ہاؤس کی کئی ویڈیو سیریز میں دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Jim Watson/AFP /Getty Images
اسکینڈل کا سبب بننے والا ’فرسٹ پیٹ‘
امریکا کے 32ویں صدر فرینکلن دی روزویلٹ کا کتا ’فالا‘ اب تک کا سب سے مشہور صدارتی پالتو جانور رہا ہے۔ سن 1944 میں روزویلٹ اپنے کتے فالا کو غلطی سے چھوڑ کر ایک جزیرے کی سیر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور ایسی افواہ سامنے آئی کہ روزویلٹ نے ٹیکس دہنندگان کے پیسوں سے امریکی بحری جہاز کے ذریعے فالا کو اپنے پاس منگوا لیا۔ روزویلٹ اس الزام کی تردید کرتے تھے۔
تصویر: Richard Maschmeyer/picture alliance
کینیڈی کا پالتو گھوڑا
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی بیٹی کیرولین کو چھوٹی قد کی نسل کا ایک خوبصورت گھوڑا تحفہ دیا تھا۔ اس کا نام ماکارونی تھا۔ موسم سرما کے دوران وائٹ ہاؤس کے صحن میں کیرولین اور اس کے دوست ماکارونی پر گھڑ سواری کرتے تھے۔
تصویر: akg-images/picture alliance
پالتو جانور کھائے نہیں جاتے
وائٹ ہاؤس کا سب سے انوکھا پالتو جانور راکون ممالیہ تھا، جس کا نام ربیکا تھا۔ صدر کیلون کولج کو یہ راکون تھینکس گونگ کے روایتی پکوان میں استعمال کرنے کے لیے تحفہ دیا گیا تھا۔ لیکن جانور دوست صدر نے اس ممالیہ کو ایک پالتو جانور کے طور پر رکھ لیا۔
تصویر: gemeinfrei
کچھ پالتو جانور کاٹتے ہیں
سن 1820 میں سربراہان مملکت کے لیے غیر ملکی رہنماؤں سے نایاب جانوروں کا تحفہ ملنا معمول کی بات ہوتی تھی۔ صدر جان کوئنسی ایڈمز کو ایک فرانسیسی فوجی جنرل نے ایک مگر مچھ کا بچہ تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاں سن 1930 میں صدر ہیبرٹ ہوور کے بیٹے بھی وائٹ ہاؤس میں اپنے ساتھ دو پالتو مگر مچھ لائے تھے۔